ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

کسی بھی قوم کے عروج پر پہنچنے یا زوال کی گہرائیوں میں گرنے کی بڑی وجہ اس ملک کے قائدین کا طرز عمل اور پالیسیاں ہوتی ہیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے چینی قیادت کی مثال دیتے ہوئے ماؤزے تنگ کا تذکرہ کیا تھااور اپنے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ دنیا کے دوسرے عظیم سیاسی رہنماؤں کی اچھی باتوں کا بھی اسی کالم میں آئندہ ذکر کریں گے آج ہم شمالی ویت نام کے صدر ہوں چی من کی سادگی کاایک قصہ بیان کر رہے ہیں جو ہم نے شمالی ویت نام میں پاکستان کے ایک سابق سفیر کی ایک کتاب سے اخذ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں جب اپنے اسناد سفارت ان کو پیش کرنے گیا تو میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میں نے ان کے دفتر میں پڑی ہوئی کرسیاں میزیں اور صوفہ سیٹ دیکھے جو سب بانس کی لکڑی کے بنے ہوئے تھے جو سستی ترین لکڑی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے لیڈروں کا ظاہر اور باطن ایک تھا وہ اس قسم کے لیڈر نہ تھے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو عوامی بہبود اور کفایت شعاری کی باتیں کریں اور  جب اقتدار میں آئیں تو سرکاری پیسوں  کو پانی کی طرح بہائیں۔ یاد رہے کہ ہوں چی من نے ایک طویل جنگ کی قیادت کرنے کے بعد امریکی فوجیوں کو ایک عبرت ناک شکست دے کر شمالی ویت نام سے نکالا تھا اور ان کو  اپنے ملک اسی عزت اور توقیر کی نظر سے دیکھا جاتاہے کہ جس طرح چین میں ماؤ زے تنگ کو دیکھا جاتا ہے۔اب کچھ تذکرہ امام خمینی کا ہوجائے  جنہوں نے اپنے پیچھے کیا ترکہ چھوڑا ے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام خمینی کے صاحبزادے کا جب انتقال ہوا تو اس کا بینک بیلنس پاکستان کی کرنسی میں صرف 48 روپے کے مساوی تھا۔اسی طرح امام خمینی کے گھر کا ایک ملازم اپنے علاقے کے ایک قصاب سے آدھا  کلو گوشت لاتا۔اس قصاب نے ایک دن مزاقاً اس سے کہا کہ یار کسی دن ایک کلو بھی لے جایا کرو اس نے کہیں امام خمینی سے یہ ماجرا بیان کر دیا تو امام خمینی نے اسے کہا کہ تم قصاب سے کہہ دیتے کہ بس ہم اس سے زیادہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ہم اتناہی کھاتے پیتے ہیں جو ایک عام ایرانی کھاتا پیتا ہے۔اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہوجائے۔ہم جیسے کئی لوگ لکھ لکھ کر تھک ہار چکے کہ خدا را ٹریفک کے نظام کو درست کیا جائے ورنہ ٹریفک حادثات میں ہر سال ہلاک ہونے والوں کی تعداد کینسر اور امراض قلب سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہو جائے گی اور وہی ہوا جس کا ہمیں خدشہ تھا۔ ٹریفک حادثات سے جتنے لوگ آج مر رہے ہیں اتنے کینسر اورہارٹ اٹیک سے نہیں مر رہے۔ اخبارات میں سنگین ٹریفک حادثات کی خبریں دیگر خبروں پر غالب رہتی ہیں۔کہیں گاڑی تیز رفتاری کے باعث قابو سے باہر ہوکر حادثے کا شکار ہوجاتی ہے تو کہیں ٹائراڈ ٹوٹنے پر گاڑی پل سے نیچے گرنے کا واقعہ پیش آتاہے۔ دیکھا جائے تو تمام صورتوں میں ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی ان حادثات کی بڑی وجہ قرار پاتی ہے۔پر مجال ہے کہ متعلقہ حکام کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔اس حوالے سے موثر اور تیز ترین کاروائی کی ضرورت ہے۔ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کی صورت میں اگر مناسب سزائیں دی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ نہ رکے۔اسی طرح ممنوعہ بور کے اسلحے پر قابو پاکر آئے روز لوگوں کے درمیان فائرنگ سے ہلاکتوں کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے آٹومیٹک اسلحہ کے استعمال سے بیک وقت درجنوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کا اسلحہ عام لوگوں کے پاس ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔