فٹ بال کا بخار 

  فٹ بال کا بخار ائندہ دو دنوں میں اُتر جاے گا جب 2022 ورلڈ کپ کا فائنل میچ  قطر میں کھیلا جائے گا۔ انجام کار ارجنٹینا کی فٹبال ٹیم ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ تک پہنچ ہی گئی اب اس کا فائنل میں ٹاکرا فرانس کے ساتھ ہو گا جو موجودہ ورلڈ چمپئن ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے آ غاز سے پہلے فٹبال کے مبصرین نے یہ پیشگوئی کر دی تھی کہ امسال اس بات کا قوی امکان ہے کہ ارجنٹینا شاید ورلڈ کپ جیت لے۔بہر حال دنیا کی دو بہترین فٹبال کی ٹیمیں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ آ رجینٹینا اب تک دو ورلڈ کپ جیت چکا ہے 1978 اور پھر 1986 میں اور اس کے علاوہ وہ تین مرتبہ رنرز آپ بھی رہا ہے یعنی فائنل میں پہنچ کر ہاراہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے اس کا ٹریک ریکارڈ کافی شاندار ہے، ویسے برازیل وہ ملک ہے کہ جس نے ورلڈ کپ 5 مرتبہ جیتا تھا۔ لاطینی امریکہ کے لوگ فٹبال کے دیوانے ہیں گو کہ یورپ کے کئی ممالک بھی اس کھیل میں اب ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان چند ابتدائی کلمات کے بعد چند دوسری اہم تازہ ترین خبروں پر ہلکا سا تبصرہ ہو جائے۔ جب بھی پاکستان کی طرح کوئی بھی زرعی ملک چینی گندم یا چاول جیسی اجناس در آمد کرتاہے تو اس ملک کے محب وطن لوگوں کو افسوس ہوتا ہے اور وہ یہ بات کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم کو تو مندرجہ بالا اجناس خوردنی بر آمد کرنا چاہئے نہ کہ درآمد، کیونکہ خدا نے ہمیں مختلف موسم عطا کئے ہیں۔ ہمارے پاس آبپاشی کا اچھا نظام موجود ہے، ہاں البتہ جس چیز کی کمی ہے وہ ہے مناسب زرعی پالیسی کا فقدان، عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں کمی کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ اس کالم کے چھپنے سے پیشتر ملک میں پٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی ہو جائے۔ ارباب اقتدار کو ایک ایسا میکینیزم وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جوں ہی عالمی مارکیٹ میں پٹرول سستا ہو اسی تناسب سے اس ملک میں پٹرول کی قیمت بھی کم کر دی جائے اور پھر ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کرایوں میں بھی اسی حساب سے کمی کی جائے تاکہ عام آدمی کو پٹرول کی قیمت میں کمی کا فائدہ پہنچ سکے۔ حکومت نے حال ہی میں ملک میں  ڈالر کی کمی کے باعث سالانہ 30 ہزار ڈالر سے زائد بیرون ملک لے جانے پر جو پابندی لگائی ہے وہ ایک صائب قدم ہے پر خدا لگتی یہ ہے کہ ہمیں اپنے  زر مبادلہ کے ذخائر زیادہ کرنے کیلے انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ اس ملک کی مٹھی بھر اشرافیہ ہے کہ جو اپنے بچوں کے شادی بیاہ کے دعوت نامے چھپوانے یا زیورات خریدنے بھی دوبئی یا ابو ذہبی جاتی ہے۔ شادی کے ولیمے ڈنر کا انتظام  اور اہتمام بھی برج خلیفہ جیسی مہنگی  جگہوں پر کرتی ہے‘جسکے افراد  کے محل نما  بنگلوں کے پورچ میں ایک سے زیادہ لمبی چوڑی کاریں اور جیپیں کھڑی ہوتی ہیں ان سب کی خریداری پر بھی تو آخر زرمبادلہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ہم کیوں فوری طور پر بیرون ملک سے سامان تعیش کی امپورٹ پر مکمل پابندی نہیں لگاتے۔ہم کیوں اپنے ملک میں بڑی  بڑی گاڑیوں کا استعمال بند نہیں کرتے۔