کچھ اردو لٹریچر کی باتیں 

دنیا جہان کے مسائل پر تو ہم روزانہ لکھتے ہی رہتے  ہیں آج کے کالم میں کیوں نہ اردو ادب سے متعلق کچھ موضوعات پر چند باتیں رقم کر دی جائیں۔ ڈکشنری یعنی لغت ہر زبان کا بنیادی جز ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ہی ہر زبان کا لٹریچر گھومتا ہے۔ اُردو نے بلا شبہ برصغیر میں آنکھ کھولی پر خدا لگتی یہ ہے کہ اس کی لغت نویسی میں فرنگی ولندیزی اور پرتگیزی حکمرانوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان غیر ملکیوں کو بر صغیر میں اپنے تجارتی اور انتظامی معاملات بطریق احسن چلانے کے واسطے اردو زبان کی پرورش اور اس کی نشوونما کی بہت ضرورت تھی ان کے ادوار میں اردو اس وقت کے برصغیر کی ایک اہم بولی تھی جو بہ آسانی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
 اُردو کی پہلی لغت 1630 میں چھپی اس میں فارسی،ہندی فرنگی اور پرتگالی الفاظ تھے اس کے بعد 1715 میں ایک لغت iNGVA HINDUSTANIC شائع ہوئی۔  یہ لغت لاطینی زبان میں تھی  لیکن ہندی اردو الفاظ اور محاورات رومن حروف میں درج تھے۔
 اردو کی جس باضابطہ لغت کو پہل کا اعزاز حاصل ہوا وہ غرائب اللغات ہے  جو 1790 میں چھپی۔ 1888 میں اردو کی سب سے اہم اور مقتدر لغت فرنگ آ صفیہ چھپی۔ اس کے بعد کئی دیگر لغات بھی مرتب کی گئیں ان میں سے چند لغات کے نام درج ذیل ہیں۔ نورالغات،  فرہنگ حامدیہ اور فیروزالغات وغیرہ۔ اردو لٹریچر سے جڑی ہوئی چند دلچسپ باتوں کا ایک ہلکا سا تذکرہ یہاں پر بے جا نہ ہوگا۔ایک شام جوش صاحب معمول کی چہل قدمی کے بعد گھر سے قریب کسی چوک پر کھڑے تھے ان کے ایک مداح نے انہیں دیکھ کر اپنی گاڑی روکی اور کہا آ ئیے جوش صاحب آپ کو چھوڑ دوں، جوش صاحب نے کہا میاں  کتے اور کبوتر چھوڑے جاتے ہیں، آدمی کو پہنچایا جاتا ہے۔اگر آپ کو شاعری سے شغف ہو تو آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ بعض مقامات پر لفظ ”پاس“ کا استعمال بغیر مرکب بڑا جاذب ہے۔
 بقول داغ، 
کون آتاہے برے وقت کسی پاس اے داغ
 آج کل نصیر ترابی کی کتاب شعریات P0ETICS ہمارے زیر مطالعہ ہے۔ہماری دانست میں اس کتاب کو ریڈیو اور ٹیلیوژن کے ہر نیوز ایڈیٹر اور نیوز کاسٹر کو باریک بینی سے پڑھنا ضروری ہے کیونکہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ بسااوقات خبریں پڑھتے وقت ان کا  تلفظ درست نہیں ہوتا جس سے سامعین خصوصا ًچھوٹی عمر کے بچے اور بچیوں کا تلفظ بھی خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جب تک ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں بخاری براداران یعنی زیڈ اے بخاری اور پطرس بخاری   جیسے براڈکاسٹر یا ان کے شاگرد ان اداروں کے ارباب بست و کشاد تھے تو وہ اس قسم کی باریکیوں پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔215 صفحات پر مشتمل اس کتاب  میں مصنف نے تعریفات،مروجہ اصناف سخن، متروکہ اصناف حرکات و سکنات، درست املا تلفظات  تذکیرو تانیث،واحد جمع،منافات،مشابہ الفاظ،سابقے لاحقے،غلط العام، نافذہ اصلاحات، اجازت و ممانعت،مترادفات اور اردو لغات کے عنوانات کے نیچے اردو لٹریچر کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے۔  یہ کتاب پرنٹ  اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہر شخص کو پڑھنی چاہئے۔