ورلڈ بینک کا اہم اقدام

 دنیا بھر کے اکثر ممالک میں صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ دکانیں کھل جاتی ہیں اور مختلف کاروبار شروع ہو جاتے ہیں اور شام ڈھلنے کے ساتھ ہی دکانیں بندہو جاتی ہیں اس طریقہ کار سے بجلی کے استعمال میں کافی کمی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی صبح سویرے سویرے اٹھنا اور رات کو جلدی سو جانا انسانی صحت کیلے مفید ہے لہٰذا تاجروں کا رات آٹھ بجے بازار بند کرنے کے فیصلے کو مسترد کرنا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں کہاجا سکتا۔اس جملہ معترضہ کے بعد ذکر کر لیتے ہیں چند تازہ ترین عالمی اور قومی  امور کا۔یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ورلڈ بینک کے جاری کردہ ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی کیلئے جاری منصوبوں کی خاطر 1.69 بلین ڈالر فراہم کرنیکی منظوری دیدی گئی ہے۔اقتصادی اور مالیاتی حوالوں سے پہلے ہی شدید مشکلات کے شکار پاکستان کو اس سال مون سون کے موسم میں ریکارڈ حد تک شدید بارشوں کے بعد آنے والے تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے اربوں ڈالر مالیت کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ ماہرین نے ملکی تاریخ کے ان بدترین سیلابوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ایک وسیع تر قدرتی آفت کی شکل اختیار کر جانے والے ان سیلابوں کے باعث ملک کا تقریبا ًایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہی سیلاب ملکی بنیادی ڈھانچے اور زرعی شعبے کو پہنچنے والے وسیع تر نقصانات کے علاوہ تقریباً 1700 شہریوں کی ہلاکت کا سبب بھی بنے تھے۔ورلڈ بینک کے بیان کے مطابق ان تقریبا پونے دو ارب ڈالر کے مالی وسائل سے زیادہ تر جنوبی مشرقی صوبہ سندھ میں سیلاب کے متاثرین کے لئے جاری امدادی اور بحالی منصوبوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے گا۔ان سیلابوں سے پورے پاکستان میں صوبہ سندھ کو ہی سب سے زیادہ تباہی اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پاکستان کے لئے ورلڈ بینک نے جن 1.69 بلین ڈالر کی فراہمی کا اعلان کیا ہے، ان کی ضرورت اس لیے بہت زیادہ تھی کہ پاکستان اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے پاس سیلابی متاثرین کی مدد کیلئے دستیاب مالی وسائل ختم ہونے کو تھے‘ اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام کے پاکستان کے لئے ڈائریکٹر کرس کائی نے حال ہی میں یہ تنبیہ کی تھی کہ موسم گرما میں آنے والے سیلابوں کے کئی ملین متاثرین کو ابھی تک امداد کی اشد ضرورت ہے لیکن دستیاب مالی وسائل ممکنہ طور پر صرف پندرہ جنوری تک کے لیے ہی کافی ہوں گے۔اس پس منظر میں کرس کائی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بحالی منصوبوں کیلئے اضافی وسائل دستیاب نہ ہوئے تو سیلابی متاثرین کیلئے نیا سال 2023 بھی بحرانی سال ثابت ہو گا‘پاکستانی حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں آج بھی تقریباً 23 ہزار شہری ایسے ہیں، جو وہاں ہنگامی طور پر لگائے گئے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔