اہم ملکی اور بین الاقوامی امور

سیاست کو اگر ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ بنایا جائے تو یہ ایک طرف عوام کی بھلائی کا باعث تو ہوگا ہی ساتھ ایسی سیاسی شخصیات کو عوام بھی کبھی فرامو ش نہیں کرتے اور ہمیشہ ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ آج ہم  ایک ایسی ہی سیاسی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہیں جو خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کی بہت ساری پارٹیوں کی دلی خواہش ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ ان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔جی ہاں ہمارا اشارہ انور سیف اللہ خان کی جانب ہے۔ انور سیف اللہ خان کی شخصیت کے تین پہلو ہیں ایک بطور سابق بیوروکریٹ، دوسرا بطور بزنس میں اور تیسرا بطور ایک سیاست دان اور یہ ان ہی کا خاصہ ہے کہ ان تینوں حیثیتوں میں وہ عوام کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ جن جن اضلاع اور سب ڈویژنز میں وہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تعینات رہے وہاں جا کر آپ ان علاقوں کے عوام سے ان کے بارے میں پوچھیں تو وہ آپ کو ان کی دیانت داری، ملنساری اور عوام دوستی کی گواہی دیں گے۔تاجر پیشہ طبقوں کے کرتا دھرتاؤں سے پوچھیں تو وہ بھی ان کے لئے نہایت ہی اچھے الفاظ استعمال کریں گے اور سیاست دانوں سے ان کے بارے میں اگر پوچھا جائے تو  قطع نظر اس بات کے کہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو تو ان کو بھی آپ انور سیف اللہ خان کی تعریف  کرتے پائیں گے۔ انگریزی زبان کا ایک لفظ ھے versatilty یعنی ہمہ گیری جو ان پر صادق آتا ہے۔ ایسا شازہی ہوا ہے کہ ایک بیوروکریٹ یا بزنس مین ا چھا سیاست دان بھی ثابت ہوا ہو، پر اس مفروضہ کو انور سیف اللہ خان نے اپنے حسن اخلاق سے غلط ثابت کیا ہے۔ وہ ہمہ وقت  منصب اور سیاست برائے خدمت کے اصولوں پر عمل پیرا رہے کہ جو معاشرے کے مفلوک الحال طبقوں کے لئے درد دل رکھتا ہو۔ مشکل کی گھڑی میں ان کے کام آتا ہو ملکی قوانین کی پاسداری کرتا ہو اور اپنے کردار یا گفتار سے کسی کی دل آزاری نہ کرتاہو۔ انور سیف اللہ خان کے ساتھ ہم نے  اپنی ایک حالیہ ملاقات میں جب ان سے خارجہ امور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان کو کسی بھی سپر پاور کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہئے اور روس  چین امریکہ  سمیت تمام ممالک کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کی پالیسی اپنانی چاہئے۔ نیز اس خطے کے ممالک بشمول ایران اور افغانستان کے ساتھ  خاص طور پر قریبی تعلقات رکھنے چاہئے۔  ماضی میں جب بھی وہ ایوان اقتدار کا حصہ رہے تو انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی چابک دستی کا مظاہرہ کیا اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ ان  پربھر پور اعتماد کرتے ہیں۔انور سیف اللہ خان کے کردار کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی پیسوں سے غریبوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلے کئی سوشل ویلفیئر ٹرسٹ بھی چلا رہے ہیں۔وہ کئی عوامی فلاح و بہبود کے کام نہایت خاموشی سے کر رہے ہیں اور قطعا ًنہیں چاہتے کہ ان کی کسی قسم کی پبلسٹی ہو یا ان سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا جائے اور یہ یقینا بہت بڑی بات ہے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر انور سیف اللہ خان کو آیندہ الیکشن کے بعد اس ملک کے عوام کی خدمت کیلے کوئی کلیدی عہدہ سونپا جائے کہ جس کے وہ سو فیصدمستحق ہیں۔اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہوجائے۔یوکرینی صدر نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام نامساعد حالات کے باوجود یوکرین روس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ فروری میں روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف شروع کی گئی جنگ کے بعد صدر وولودیمیر زیلنسکی کا بیرون ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔  گزشتہ روز انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک نے روس کے سامنے کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالنے کا عزم کر رکھا ہے۔یوکرین کے صدر نے امریکی کانگریس سے ایسے وقت خطاب کیا جب امریکی قانون ساز 1.7 ٹریلین ڈالر کے ایک بجٹ پر بحث کر رہے ہیں، جس میں تقریباً45 بلین ڈالر کی رقم یوکرین میں فوجی اور انسانی امداد کے لئے دینے کی تجویز ہے۔امریکہ یوکرین کو 1.85بلین ڈالر کی اضافی سکیورٹی امداد بھی فراہم کرے گا، جس میں پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم شامل ہے۔صدر زیلنسکی نے کہا کہ آئندہ سال یوکرین کی جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔زیلنسکی کی آمد سے کچھ دیر قبل ہی، امریکہ نے یوکرین کو اپنے اب تک کے سب سے بڑے ہتھیاروں کی فراہمی کا اعلان کیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ یوکرین کے لئے 1.85 بلین ڈالر  اضافی فوجی امداد فراہم کرے گا، جس میں پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کی منتقلی بھی شامل ہے۔قطع نظر اس کے کہ یوکرین کو جنگ میں کس نے دھکیلا اور اس کا سراسر نقصان یوکرین کوہی ہوا ہے یہ کہنا غلط نہیں کہ یوکرین نے روس کی توقعات کے برعکس شدید مزاحمت کامظاہرہ کیاہے۔یہ الگ بات ہے کہ جس قدر یوکرین امریکہ کے زیادہ قریب ہوگا اتنا ہی وہ غیر محفوظ رہے گا کیونکہ امریکہ کا مقصد یوکرین کے ساتھ بھلائی کرنا یا اسے ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنا نہیں بلکہ روس کے مقابلے میں اسے اتارنا ہے جو کسی بھی طرح یوکرین کے مفاد میں نہیں۔