سنیما کلچر قصہ پارینہ

پشاور کے اکثر سینما گھر اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں پشاور چھاؤنی میں ارباب روڈ پر کیپیٹل سینما اور پشاور صدر کے مین بازار میں لینڈز ڈاؤن کے نام سے دو سینما گھر ہوا کرتے تھے لینڈزڈاؤن کا نام تو بعد میں فلک سیر سینما رکھ دیا گیا تھا ان دونوں سینما گھروں میں صرف انگریزی زبان کی فلمیں چلائی جاتی تھیں پشاور شہر میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور آسامائی گیٹ کے قرب میں ناز سینما ہے جس کا پرانا نام روز سینما تھا اس سینما گھر میں بھی اکثر انگریزی فلمیں ہی نمائش کیلے پیش کی جاتیں کننگھم پارک جسے آج کل جناح پارک کہا جاتا ہے کے قریب فردوس سینما واقع تھا جس کانام بھی بعد میں تبدیل ہوگیا تھاجبکہ تھوڑا آگے جاکر میٹرو سینما ہوا کرتا تھا‘ کابلی گیٹ کے اندر سینما روڈ پر تین سینما گھر ہوا 
کرتے تھے جن کے نام تھے پکچر ہاؤس‘ناولٹی اور تصویر محل‘ان تمام سینما گھروں میں روزانہ تین شوز ہوا کرتے جو تین بجے سہ پہر سے لیکر آدھی رات تک چلا کرتے بعض سینما گھروں میں اتوار کے دن صبح کے وقت بھی ایک شو چلایا جاتا ان سینما گھروں میں نہایت ہی کم پیسوں کے ٹکٹ پر عوام کی تفریح کا سامان مہیا کیا جاتا ان سینما گھروں میں مختلف کٹیگری کے ٹکٹ ہوتے جن کا نرخ چھ آ نے سے لے کر تین روپے فی شو تک ہوتا جسے عوام کی ایک کثیر تعداد کی جیبیں برداشت کر سکتی تھیں جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ 1980ء تک جاری و ساری رہا اس دور میں فلم سنسر بورڈ کی قینچی بڑی تیز تھی اور کسی فلمساز کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ مخرب الاخلاق فلم نمائش کیلئے پیش کر سکے اس دور میں ایسی ستھری فلمیں بنا کرتی تھیں جو تمام اہل خانہ اکھٹا بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے ہزاروں لوگوں کا روزگار ان سینما گھروں کیساتھ جڑا ہوا تھا اس زمانے میں بننے والی پاکستانی فلموں کا معیار اسلئے اونچا تھا کہ مقابلے میں ہندوستانی فلمیں بھی ان سینما گھروں میں چلائی جاتی تھیں جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہندوستانی فلموں 
کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگی‘مقابلے یعنی competition کا عنصر ختم ہو گیا اور پاکستانی فلموں کے معیار کے گرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی جب ہماری فلم انڈسٹری نے غیر معیاری فلمیں بنانا شروع کیں اور ملک میں وی سی آر کا چلن عام ہوا تو سینما بینوں نے سینما گھروں کا رخ چھوڑ دیا جب سینما گھروں کے مالکان کا کاروبار گرا تو انہوں نے یا تو اپنے سینما گھر فروخت کر دئیے اور یا پھر ان کو میرج ہالز یا پلازوں میں تبدیل کر دیا۔اس طرح فلم انڈسٹری بھی بری طرح متاثر ہوئی اور فلمیں بننا بند ہو گئیں پہلے جہاں سال میں درجنوں فلمبں بنتی تھیں اب بمشکل گنی چنی اور غیر معیاری فلمیں بن رہی ہیں‘پشاور میں اس وقت جوسینما چل رہے ہیں ان کو پشتو فلموں نے سہارا دے رکھا ہے۔