ترقی کاراز

امریکہ نے یوکرائن کو بھی جدید اسلحہ سے لیس کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس ضمن میں ایک بڑی رقم منظور کی ہے اور وہ روس کے خلاف جنگ میں اس کی ہلہ شیری بھی کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یورپ سے ابھی جنگ کے بادل چھٹے نہیں ہیں اس جنگ میں قطع نظر اس بات کے کہ کون حق پرہے اور کون غلط کر رہا ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یوکرین کی افواج نے روسی فوج کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا اور اپنے سے کئی درجے مضبوط دشمن روس کو اپنے پر غالب آنے نہ دیا۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یوکرین نے جدید تاریخ کی جنگوں میں اپنا نام بہادر اقوام کی فہرست میں شامل کر دیا ہے اور اس نے جس طرح اپنے سے کئی گنا بڑے روس کا بے جگری سے مقابلہ کیا ہے وہ جدید جنگوں کی تاریخ کاایک اہم باب ہے۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یوکرین کوایسی قیادت نصیب ہوئی ہے کہ جس نے ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کی بجائے ملک میں رہتے ہوئے مزاحمت کا ارادہ کیا اور پھر اس کے ان ارادوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اورا سکے اتحادیوں نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہو جائے۔ہماری جنریشن کے لوگوں نے پاکستان ریلویز اور قومی ایئرلائن کا عروج بھی دیکھا اور پھر زوال بھی،ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کے جہاز وقت مقررہ پر اُڑان بھرتے تھے یہ 1971 سے پہلے کی بات ہے اس وقت کے مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان ایک مرتبہ کراچی کسی میٹنگ میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے اور ڈھاکہ جانے کیلئے ایک فلائٹ پر بک تھے وہ جہاز کی روانگی کے وقت سے کوئی پندرہ منٹ لیٹ ائر پورٹ پہنچے۔ جہاز اس دوران پرواز کر چکا تھا انہوں نے غصے میں اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان کو پی آئی اے کے حکام کے خلاف یہ خط لکھ ڈالا کہ وہ گورنر ہیں اس لئے متعلقہ پائلٹوں کو ان کا کچھ انتظار تو کرنا چاہئے تھا۔ ایوب خان نے وہ خط اس وقت کے پی آئی اے کے چیرمین ائر مارشل اصغر خان کو برائے تبصرہ بجھوا دیا۔جس کے جواب میں ائر مارشل اصغر خان نے صدر مملکت کو لکھا کہ گورنر صاحب کو شکایتی خط لکھنے کے بجائے پی آئی اے کی تعریف کرنی چاہئے تھی کہ قومی ائر لائن وقت کی اتنی پابندہے کہ وہ گورنر کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔یہ تھا پی آئی اے کے جہازوں کی وقت کی پابندی کا احترام۔ یہ وہ دور تھا جب پی آئی اے نے خود تو بین الاقوامی ائر لائنزمیں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد دیگر ممالک کی ائرلائنز کو بھی ترقی و کامرانی سے ہمکنار کیا تھا۔ یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے کہ اداروں پر اگر حد سے زیادہ بوجھ لاد دیا جائے تو پھر ادارے ترقی کی بجائے زوال کاشکار ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ادارو ں کی ترقی میں ڈسپلن بھی اہم ہے۔اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ صفات اب کم ہی دیکھنے میں آرہی ہیں۔اس طرح وقت کے تقاضوں کے ہم آہنگ مہارت حاصل کرنا بھی نوکری کے حصول کو آسان بنا دیتا ہے اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جو اس میں مہارت رکھتے ہیں۔