قابل ستائش اقدام

گڈ گورننس کی جستجو بھلے وہ قدیم چین کے دانشور تھے یا پھر یونانی فلسفی بھلے وہ میکاولی تھا یا چانکیہ وہ سب جنگ کے ہنر اور فن اور گڈ گورننس کے خدو خال پر بحث و مباحث کرتے آئے ہیں۔  ایک مثالی ریاست کے قیام اور گڈ گورننس کا حصول سب کے پیش نظر رہا۔ افلاطون کے ریپبلک اور سر تھامس مور کے utopia یوٹوپیا کے نظریہ پر بھی کئی دانشور اپنا سر کھپاتے رہے ان سب لوگوں کی منشا یہ تھی کہ حکومت کو اس طرح سے چلایا جائے کہ عوام مطمئن رہیں۔ گڈ گورننس آخر ہے کیا اس کا ایک سادہ ساجواب تو یہ ہے کہ جن لوگوں پر حکومت کی جا رہی ہو  وہ حکومت کی کار کردگی سے خوش ہوں۔  ان کا حکومتی سسٹم پر بھی اعتماد ہو اور ان پر بھی کہ جو اسے چلا رہے ہوں۔ یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ لوگ مطمئن ہیں۔تاریخ نے سکھلایا ہے کہ لوگ اس صورت میں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اگر ان کے روزمرہ کے معاملات جلدی سے بطریقہ احسن طے ہوں۔صوبائی حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ اس نے ممنوعہ بور کے اسلحہ کے لائسنس جاری کرنے کے بارے میں پالیسی وضع کرنے کیلے ایک کمیٹی کی تشکیل دی ہے اس ضمن میں اس کمیٹی کے ممبران کی یاد دہانی کیلئے ہم یہ عرض کر دیں کہ ممنوعہ بور کا اسلحہ  عام شہریوں کے ہاتھوں میں ہر گز نہ ہو۔کیونکہ اس طرح  اس کے استعمال سے ملک میں قتل مقاتلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا امید ہے کہ مندرجہ بالا کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرتے وقت اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت سے سفارش کرے گی کہ ممنوعہ بور کے لائسنس نجی ہاتھوں میں بالکل نہ دیئے جائیں۔ جہاں تک دشمن دار افراد کو اپنی حفاظت کے واسطے اسلحہ لائسنسوں کی ضرورت ہے تو وہ اپنے اپنے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دے کر غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے لائسنس حاصل کر سکتے ہیں۔ماضی میں اس قسم کے اسلحہ لائسنس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہی جاری کیا کرتے تھے۔ ہر ضلع کے لئے حکومت نے ماہانہ فکسڈ کوٹہ مقرر کر رکھا تھا اسی پرانے نظام کو بحال کیا جا سکتا ہے۔اب کچھ تذکرہ عالمی امور کا ہوجائے، چین اور امریکہ کے درمیان چپقلش سے پوری دنیا کے ممالک متاثر ہورہے ہیں کیونکہ ایک بار پھر دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں نظر آرہی ہے اور ایسے میں لازمی طور پر اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو چین اس وقت پوری دنیا میں اپنے معاشی منصوبوں کا جالاپھیلانے میں مصروف ہے جس کا فائدہ چین کو توہوگا ہی ساتھ ان ممالک کو بھی ہورہاہے جو ان منصوبوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔پاکستان میں سی پیک بھی ان منصوبوں میں سے ہے جن کا تعلق چین کے بیلٹ اینڈ روٹ اینی شیئے ٹیو سے ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس حوالے سے چین کاراستہ روکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔خاص کر جنوبی ایشیاء میں جہاں چین وسطی ایشیاء کی طرف سی پیک کو پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے امریکہ ا سکے  خلاف سر گرم عمل ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی امریکہ آرام سے نہیں بیٹھا بلکہ اب بھی وہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ میں لگا ہے اور دیکھا جائے تو یہ بات غلط نہیں کہ امریکہ کے مفادات اکثر جنگوں اور تنازعات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کی بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپینیاں عالمی سطح پر تنازعات سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور اپنی تجوریوں کو بھرتی ہیں۔