چند صائب فیصلے

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا یہ فیصلہ بجا ہے کہ سرکاری عمارات بھلے وہ ملک کے اندرہوں یا غیر ممالک میں وہ ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں اور ان کو اونے پونے فروخت نہیں کیا جانا چاہئے۔ مقام شکر ہے کہ ایک لمبے عرصے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی دوبارہ فعال نظر آ رہی ہے‘ وطن عزیز میں اگر حکومت کے توانائی بچاؤ پلان پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو ملکی خزانے کو ہر سال اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے اور ملک میں توانائی کا بحران کافی حد تک کم بھی ہو سکتا ہے۔ اب تذکرہ کچھ تاریخی حقائق کا ہوجائے۔1949 میں ما ؤزے تنگ اور ان کے کامریڈوں نے جب انقلاب چین کو کامیابی سے ہم کنار کیا تو پھر ایک لمبے عرصے تک۔ انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کیلئے اپنے دروازے بند رکھے خصوصا ًامریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے لئے جس پر ان کے دشمن ممالک نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے چین کے ارد گرد آہنی دروازے لگا رکھے ہیں پر ماؤ زے تنگ کو اس بات کا پورا ادراک تھا کہ اگر انہوں نے انقلاب چین کے بعد کچھ عرصے کے اندر اس کی بنیادوں کو استوار نہ کیا تو کمیونزم کے دشمن سازشوں سے اس کے انقلاب کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے نہ دیں گے۔ وہ چند برسوں تک انقلاب چین کو چہنسہلیداتع یعنی مضبوط کرنا چاہتے تھے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ کچھ وقت تک چین اپنے آپ کو کسی بھی عالمی تنازعے میں بالکل نہ پھنسائے اور اپنی تمام تر توانائی کو اپنی معیشت مضبوط کرنے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کیلئے وقف کرے۔ جب ہم 1995 میں چین گئے تو چینی حکام نے ہمیں بتلایا کہ چین 2014 تک اپنی تمام تر توجہ اپنے ترقیاتی کاموں کی طرف مبذول رکھے گا۔امریکہ نے 1949سے لے کر 2014 تک لاکھ کوشش کی کہ وہ اسے مشتعل کر کے کسی عالمی تنازعے میں ملوث کرے پر چین نے اس ضمن کافی ثابت قدمی دکھائی۔ پھر جب 2014 گزر گیا تو چینی قیادت نے دھیرے دھیرے امریکہ کو ان معاملات میں آنکھیں دکھانا شروع کیں کہ جن میں وہ سمجھتی تھی کہ امریکہ زیادتی کا مرتکب ہے۔1995 میں جب ہم بیجنگ میں تھے تو ہم نے ماؤ زے تنگ کے لڑکے سے ملاقات کی خواہش کی ہمیں بتلایا گیا کہ وہ بیجنگ کے ایک عام علاقے میں رہائش پزیر ہے۔ اس کا ذکر ہم نے اس لئے کیا کہ اگر ماؤزے تنگ چاہتے تو وہ اس کو اپنا جانشین بنا سکتے تھے پر وہ موروثی سیاست کے خلاف تھے۔اس وقت چین جو عالمی منظرنامے پر راج کر رہا ہے اورٹیکنالوجی سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں اس میں اپنی فوقیت ثابت کر دی ہے تو اس کی وجہ چینی قیادت کی وہ دانشمندانہ پالیسیاں ہیں جن پر عمل کر کے چین نے کم وقت میں ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور ایسے حالات میں کہ جب دنیا معاشی مشکلات کا شکار تھی چین میں کروڑوں افراد کو غربت سے نکال کر خوشحال زندگی سے ہمکنار کر دیا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔