تاریخ کی کتب سے چند اوراق 

سر عبدالرّشیدپاکستان کے پہلے چیف جسٹس تھے،ان دنوں سپریم کورٹ لاہور میں تھی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان لاہور کے دورے پر تھے ان کے پرائیوٹ سیکرٹری نے چیف جسٹس صاحب کو وزیراعظم کا یہ پیغام دیا کہ  وزیراعظم صاحب کی طرف سے ان کو دعوت ہے کہ وہ رات کو کھانے پر گورنر ہاؤس تشریف لائیں۔چیف جسٹس صاحب کے پی اے نے ان  سے پوچھ کر وزیراعظم کے پی اے کو یہ جواب دیا کہ وزیر اعظم کا بہت شکریہ پر وہ اس ڈنر میں اس لئے شرکت نہیں کر سکتے کہ ان کی عدالت میں کئی ایسے مقدمات زیر سماعت ہیں کہ جن میں فیڈرل گورنمنٹ فریق ہے اور یہ کہ ان کی اس عشائیہ میں شرکت سے مخالف فریقین غلط تاثر لے سکتے ہیں۔یہ  ماضی کے اوراق سے ایک منتخب واقعے کا تذکرہ تھا،اب ذرا حال کی بات ہو جائے۔اس وقت ملک جس معاشی مشکلات سے دوچار ہے وہ سب کو معلوم ہے اور ماہرین معاشیات کی آراء سے قطع نظر ان مشکلات سے نکلنے کیلئے جو سب سے اہم نکتہ ہے وہ کفایت شعاری ہے۔ جب بھی ملک کی معیشت کی زبوں حالی کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے اکثر رہنما بھلے ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے وہ حد سے زیادہ  در آمدات کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں پر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ سامان تعیش یعنی ایسی اشیاء جن کی روزمرہ زندگی میں ضرورت نہیں ہوتی کی  درآمدات کو ختم کرنے یا کم کرنے کیلے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔آپ کو سڑکوں پر مہنگی ترین گاڑیوں دوڑتی نظر آتی ہیں کیونکہ پیسہ رکھنے والے کروفر سے کروڑوں روپے کی مالیت کی لمبی چوڑی گاڑیاں درآمد کر رہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ آپ کو ہر محل نما بنگلوں کے پورچ میں ایک سے زیادہ قیمتی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں گی۔  اگر ہم اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء کے استعمال کے اصول پر کاربند رہیں تو یقینی طور پر ہمارے بہت سے مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور معاشی مشکلات جن کا ہم کو بحیثیت قوم اس وقت سامنا ہے ان سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اب بھی ہر قسم کا سامان تعیش درآمد ہو رہا ہے۔ کسی بھی شہر کے کسی بھی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں آپ چلے جائیں آپ کو ہر قسم کی فارن میڈ چیز بہ آسانی مل جائے گی۔ خدا بھلا کرے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کا کہ کم ازکم وہ ایک ایسے حکمران تھے کہ اپنے دور حکومت میں جنہوں  نے ایک حکم صادر کیا کہ سرکاری لوگ بڑے سائز کی گاڑیوں کی جگہ چھوٹے سائز کی گاڑیوں کا استعمال کریں گے تو یار لوگوں نے ان کے اس فیصلے کا تمسخر اُڑایا اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔