سیاست کا بدلتا رخ

ملکی سیاست تیزی سے اپنا رخ بدل رہی ہے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی 96 ویں سالگرہ پر منعقدہ ایک فنکشن میں اگلے روز پی پی پی کے موجودہ قائد بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں بعض ایسی باتیں کیں جو ہو سکتا ہے نواز لیگ کے قائدین کے مزاج پر گراں گزری ہوں بھٹو کی پھانسی کے واقعے کو کئی قانون کے  ماہرین  نے عدالتی قتل کے مترادف قرار دیا تھا اب بلاول کا اعلیٰ عدالت سے اس کیس کو ری وزٹ کرنے کا مطالبہ اخلاقی اور عدالتی لحاظ سے بھلے کتنا ہی درست کیوں نہ ہو پر کیا سیاسی طور پر یہ مطالبہ اس ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید انتشار کا باعث نہیں بنے گا‘یہ مطالبہ اگر بالکل درست بھی قرار دے دیا جائے پر اسکیtimingsپر ہو سکتا ہے کئی سیاست دان متفق نہ ہوں‘ ان ابتدائی کلمات کے بعد حسب معمول ذکر کریں گے تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات کا کہ جن کا براہ راست وطن عزیز کے حالات پر منفی یا مثبت اثر پڑ سکتا ہے‘اس وقت ملک کو دو نہایت سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان سے جڑی ہوئی ہماری سرحد ابھی تک ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے آئے روز وہاں سے کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں جن سے اس ملک کا امن عامہ تاراج ہو رہا ہے نہ جانے اس ضمن میں ارباب اقتدار کیوں لیت ولعل کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘  امریکہ کی افغان پالیسی کئی مبصرین کی سوچ سمجھ سے باہر ہے‘ امریکہ کا عالمی امور میں یہ طریقہ کار رہا ہے کہ جب وہ اپنے گماشتوں سے کام لے لیتا ہے تو پھر ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں دیر نہیں کرتا بقول کسے نہ اس کی دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی جو بات  اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد بھلے وہ ایوان اقتدار کا حصہ ہوں یا حزب اختلاف کا ان میں اس پالیسی پر اتفاق نظر نہیں آ رہا جو انہیں افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اپنانی چاہیے اس معاملے میں انہیں متحد ہو کر ایک یونائٹیڈ  فرنٹ بنانا ہوگااور اس ضمن میں سیاسی مصلحت کی پالیسی کو پس پشت رکھ کر ملکی سالمیت اور بقاء کا سوچنا ہوگا اور اس مسئلہ پر بھانت بھانت کی بولیوں کو ترک کرنا ہوگا‘ دوسری اہم بات ملک کی زبوں حال معیشت ہے جہاں تک ملک میں ہوشربا گرانی کا تعلق ہے اس کا ملبہ ارباب اقتدار اور حزب اختلاف والے ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں اور اس کا رونا دونوں رو رہے ہیں پر کوئی بھی اس کو  حل کرنے کا راستہ نہیں بتا رہا ہمیں یہاں پر ایک مشہور برطانوی لکھاری کا ایک مقولہ یاد آ رہا ہے اس نے انگلستان کے ناقابل اعتبار موسم کے بارے میں کہا تھا کہ جسے دیکھو  ہر فرنگی انگلستان کے خراب موسم کا رونا رو رہا ہے پر کوئی نہیں بتاتا کہ اس کو کیسے ٹھیک کیا جائے؟۔