خوش آئند امر

یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ روس سے سستے تیل کی خریداری کا معاہدہ انجام کار تقریباً تقریباً طے ہوہی گیا ہے۔ کاش کہ یہ معاہدہ جو اب طے پایا ہے ایک دو سال پہلے طے ہو گیا ہوتا۔ جس رفتار سے ملکی وسائل پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ارباب اختیار کوخاص طور پر توانائی کے نئے وسائل دریافت کرکے ان سے استفادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت تمام موسموں میں اس ملک کے عوام کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو بجلی پانی سے بنتی ہے وہ عام آدمی کو بڑی سستی پڑتی ہے پر پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں مہنگے ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار زیادہ ہے۔جس رفتار سے ہمیں دریاؤں پر بند باندھ کر بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہئے تھا وہ ہم نہیں کر سکے۔ اس معاملے میں عدم دلچسپی اور غفلت کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے اب فوری طور پر توانائی کے بحران کا حل تو یہی ہو سکتا ہے کہ ڈیمزکی تعمیر کے واسطے ایک لانگ ٹرم پالیسی وضع کی جائے اور شارٹ ٹرم پالیسی میں غیر روایتی طریقوں یعنی سولر پینلز اور ونڈ فال پینلز کو بروئے کار لا کر ان سے بجلی پیدا کی جائے۔اب آتے ہیں بین الاقوامی منظر نامے کی طرف تو اس وقت روس اور امریکہ کے درمیان ایک بار پھر سرد جنگ کی کیفیت ہے اور اس میں چین بھی ایک اہم فریق کے طور پر شامل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن کو امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک اپنا دشمن نمبر ون تصور کرتے ہیں اور اس قسم کی خبریں یاافواہیں ان کے بارے میں اُڑاتے رہتے ہیں کہ وہ کئی عوارض میں مبتلا ہیں جیسا کہ عارضہ قلب کے علاہ وہ کئی قسم کے کینسر میں بھی مبتلا ہیں اور ان پر فالج کے بھی کئی حملے ہو چکے ہیں غرضیکہ ان کا چل چلاؤ کا عالم ہے اور کسی دن بھی وہ دنیا سے جا سکتے ہیں۔ مغربی میڈیا خصوصا ًسوشل میڈیا ان کے عوارض کی خبروں کو آئے دن بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہتا ہے۔ حقیقت ہے کہ روس کو ایک لمبے عرصے کے بعد پیوٹن کی شکل میں ایک ایسا لیڈر نصیب ہوا ہے جو مغربی ممالک خصوصا ًامریکہ کی آنکھوں میں اس لئے کھٹکتا ہے کہ وہ وسطی ایشیا کے ان ممالک کو دوبارہ روس کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے جو کبھی سویت یونین کا حصہ ہوا کرتے تھے اور جنہیں امریکہ نے ایک سازش کے تحت ٹکڑے ٹکڑے کر کے سویت یونین سے علحیدہ کر دیا تھا۔درحقیقت روسی عوام کی ایک اکثریت بھی پیوٹن کے پیچھے اس بات پر کھڑی ہوئی ہے کہ وہ سویٹ یونین کی نشاط ثانیہ کریں اور دنیا میں اس کا کھویا ہوا مقام اسے دوبارہ دلوائیں۔ پیوٹن نے ایک عقلمندی کا کام یہ کیاہے کہ اس نے چین کے ساتھ بنا کے رکھی ہے اور ان دو ممالک کے اشتراک سے دنیا میں کمیونسٹ بلاک کو بلا کی تقویت ملی ہے۔