انتظامی مسائل کا سامنا 

کسی بھی ملک کی ترقی اور خدمات کی فراہمی میں انتظامی ڈھانچے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد سول سروس کے دو حصے ہوا کرتے تھے‘ایک فیلڈ سروس تھی اور ایک سیکرٹریٹ سروس‘ فیلڈ میں کام کرنیوالی ایڈمنسٹریٹوسروس کلیدی مقام رکھتی تھی جو سب ڈویژنل سطح پر کام کرنیوالے اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر ڈویژن کی سطح پر کام کرنے والے کمشنر پر محیط تھی۔ ان کے بیچ ضلع کا نظم و نسق جو افسر سنبھالتا تھا اسے ڈپٹی کمشنر کہا جاتا جس کو ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی کہا جاتا کیونکہ اس کے پاس بعض جوڈیشل اختیارات بھی ہوتے تھے۔اس وقت جو مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی کا طوفان اٹھا ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے مجسٹریٹی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ عوامی مسائل  جوں کے توں موجود رہیں گے۔سول سروس کے نظام  کے مندرجہ بالا ڈھانچے کو جب خراب کیا گیا تو وہ چوں چوں کا مربہ بن گئی جو رہی سہی کسر رہ گئی تھی وہ صدر مشرف کے قائم کردہ NRB نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو نے نکال دی۔ اس نے تو جڑ سے ہی پرانے سول سروس سسٹم کو اکھاڑ پھینکا اور اس کا کوئی موثر نعم البدل بھی نہ دیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو مہنگائی دیکھنے میں آرہی ہے اس کی بڑی وجہ نچلی سطح پراس کی مانیٹرنگ میں کمزوری ہے۔ اگر مارکیٹ میں طلب  کے مطابق اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور پھر مجسٹریٹی نظام کے تحت مارکیٹ میں موقع پر سرکاری نرخنامے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں ملنا شروع ہو تو بہت ممکن ہے کہ خودساختہ مہنگائی ختم ہو۔ اور اس مقصدکیلئے کوئی اضافی خرچے کی ضرورت نہیں بلکہ محض انتظامی ڈھانچے میں وقت کی مناسبت سے کچھ تبدیلیاں ضرور ہیں۔  اب ہم جن دو خبروں کا ذکر ہم کر رہے ہیں ان کو پڑھ کر ہر محب وطن پاکستانی کو دکھ ہوا ہے پہلی خبر تو یہ ہے کہ ملکی زر مبادلہ ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے باوجود165 لگثرری گاڑ یاں منگوائی جارہی ہیں اور ان کے لئے ایل سیز کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب تک ہم اپنی درآمدات میں سامان تعیش بند نہیں کریں گے ہماری معیشت کیسے سنبھلے گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ سعودی عرب چھ ممالک سے 4لاکھ ورکرز لے گا پر ان میں پاکستان شامل نہیں ، حقیقت تو  یہ ہے کہ معاشی امداد کی بجائے اگر پاکستانی ہنرمندوں کو ہمارے دوست ممالک اپنے ہاں کام کرنے دیں تو اس سے پاکستان کو قیمتی زر مبادلہ ہاتھ آئے گا۔ان ابتدائی کلمات کے بعد ذکرتے ہیں دیگر اہم قومی اور عالمی معاملات کا،روس کے تازہ ترین راکٹ حملے میں 600 سے زائد یوکرینی فوجی ہلاک ہونے کی خبرہے کہ جس سے روس اور یوکرین میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف فلسطین میں اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت تواتر سے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے مگر مجال ہے کہ اقوام متحدہ ان دو ممالک کو اس معاملے میں نکیل ڈال سکے ان دو ممالک نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ نسل کشی کی جس پالیسی پر اسرائیل اور بھارت چل رہے ہیں  اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اگر اقوام متحدہ ان مظالم کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو ڈر یہ ہے کہ اس کا انجام کہیں لیگ آف نیشنز جیسا نہ ہو۔ایک طرف دیکھا جائے تو اقوام متحدہ نے ڈھیر سارے مسائل حل بھی کر دیئے ہیں اور کئی اقوام کے درمیان تنازعات کا حل بخوبی نکالا ہے تاہم دوسری طرف کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ ہے جسے حل کرنے میں یا تو ادارے کی دلچسپی نہیں یا یہ اس کے بس کی بات نہیں عالمی طاقتوں نے ہر حال میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور روس امریکہ سمیت چین اور کئی یورپی ممالک اقوام متحدہ میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اگر یہ ممالک چاہیں تو کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر نوٹس لینے کی صورت میں ان ممالک کو لگام دیا جا سکتا ہے۔ بھارت جس پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ بھارت پر عالمی پابندیاں عائد ہوتیں اور اس دباؤ کے تحت اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز رکھا جاتا تاہم نتیجہ اس کے برعکس ہے۔