بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی نئی قسط ملنے کے بعد بجلی کی قیمت بیس فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض کی نئی قسط ملنے کے بعد گیس کی قیمت پچاس فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض کی نئی قسط ملنے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پندرہ فیصد بڑھ جائیں گی اور اِن سبھی کے نتیجے میں افراط زر (مہنگائی) کی شرح مجموعی طور پر 35 فیصد تک پہنچ جائے گی جو اپنی جگہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے اور پاکستان کی 75 سالہ مالی تاریخ میں اِس قدر مہنگائی سب سے زیادہ ہوگی تاہم افراط زر میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہونی چاہئے کیونکہ خام تیل کی بین الاقوامی قیمت 123ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح سے کم ہو کر 80 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ مزید برآں پام آئل کی قیمت ملائیشین رنگٹ سے سات ہزار فی ٹن سے کم ہو کر ملائیشین رنگٹ چار ہزار فی ٹن اور کوئلے کی قیمت میں بھی چار فیصد کمی ہوئی ہے۔آئی ایم ایف‘ سے قرض لینے کے ساتھ درمیانی سے طویل مدتی معاشی مستحکم آنا چاہئے کیونکہ ’آئی ایم ایف‘ چاہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدن و اخراجات میں توازن پیدا کرے اور حقیقی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جائیں تاکہ سرکاری اداروں کا قومی خزانے پر بوجھ کم ہے۔ دوسری طرف بجلی و گیس کے شعبوں میں گردشی قرض بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بجلی کے شعبے میں دو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ گیس کے شعبے میں پانچ سو ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ حکومت کے نام نہاد ’کموڈٹی آپریشنز‘ میں ایک ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کو ہر سال پانچ سو ارب روپے کی خطیر بطور بیل آؤٹ دی جا رہی ہے۔ پاکستان سٹیل ہر گزشتہ آٹھ ماہ میں 67ارب روپے دیئے جا رہے ہیں۔ ’تصور کریں کہ سرکاری ادارے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز) کا جمع شدہ قرضہ ”ایک کھرب روپے“ تک جا پہنچا ہے جبکہ پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر رہی اور جہاں تھی وہیں کھڑی ہوئی ہے۔
کسی مریض کے جسم سے خون بہنے کی صورت میں اُسے فوری خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1948ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ سے مجموعی طور پر 78 ارب ڈالر سے زائد کا قرض یعنی خون (بلڈ ٹرانسفیوژن) لیا۔ کثیر الجہتی اداروں کی جانب سے ساٹھ ارب ڈالر کی خطیر رقم خون کی منتقلی کے طور پر ہوئی۔ تقریبا ستائیس ارب ڈالر چین سے آئے جبکہ دس ارب ڈالر کا تجارتی قرضہ اور دس ارب ڈالر کے بین الاقوامی بانڈز جاری کئے گئے۔ 1950ء سے 2022ء کے عرصے میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کل 23 معاہدے کئے ہیں جن کا واجب الادا قرض 7.8 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کو مالی وسائل کی ضرورت ہے لیکن یہ مالی وسائل مشروط ہیں اور یہ بات خود پاکستان کے حق میں بھی ہے کہ قرض لیکر معیشت چلاتے ہوئے ایسے اقدامات کرے جن سے ادارہ جاتی خسارہ کم ہو۔ کسی مریض کے درست علاج کے لئے یہ بھی ضروری ہے تجربہ کار معالج (سرجن) کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور پاکستان کی بیمار معیشت کو بحالی کے لئے بھی کسی درست معالج کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)