ایک دہائی سے زیادہ پہلے، اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی ایک انسانی حق ہے، جو مساوات، صحت اور اقتصادی خوشحالی کے دیگر تمام اہداف کی بنیاد رکھتا ہے۔ امریکہ نے دستخط نہیں کئے۔گزشتہ دنوں پانی کے عالمی دن کے موقع پر، عالمی رہنما اس مقصد کی جانب پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نیویارک میں جمع ہو ئے۔ یہ پہلی بار ہے کہ اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس امریکہ میں منعقد ہو رہی ہے اور وقت آگیا ہے کہ عالمی برداری اخلاقی ضرورت کو اپنائے کہ پانی ایک انسانی حق ہے۔لوگ سب سے کم جی ڈی پی والے ممالک کے لیے صاف پانی اور صفائی کی رسائی کو مسائل کے طور پر سوچتے ہیں۔ جبکہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں بھی پینے کے پانی کے مسئلے سے دوچار ہیں، یہ امر بہت سے افراد کیلئے حیرت کا باعث ہوگا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں 2 ملین سے زیادہ امریکی باشندے محفوظ بہتے پانی یا کام کرنے والے بیت الخلا کے بغیر رہتے ہیں۔ پانی اور سیوریج کے ناقابل برداشت بلوں کی وجہ سے لاکھوں مزید پانی کی بندش کا شکار ہوتے ہیں، اور موسمیاتی تبدیلی بہت سی مزید کمیونٹیز کے لیے صاف پانی تک قابل اعتماد رسائی کو خطرہ بناتی ہے۔ پانی تک رسائی کے فرق کی وجہ سے بھی امریکہ کی قومی معیشت کو سالانہ 8 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے اور اس کا شکار انسان ہیں۔ ڈیٹرائٹ سے کیلیفورنیا کی وسطی وادی تک، لوگ بیمار اور مر رہے ہیں جب ہم صاف پانی، صحت عامہ اور حفاظت تک رسائی کو ترجیح دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس سنگین صورتحال نے اقوام متحدہ کے ایک ماہر تفتیش کار کو امریکی پانی کے چیلنجوں کے لیے ان دو گرم مقامات کا دورہ کرنے پر مجبور کیا: پانی کی بندش، ناقابل برداشت بل، اور آلودہ پانی کی فراہمی ان امریکی ریاستوں کے مسائل ہیں۔مشی گن میں، 1986 سے غریب ترین گھرانوں کے لیے پانی اور گٹر کی قیمتوں کی شرح میں 400 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، اجرت اور دیگر تمام یوٹیلیٹی سروسز کی قیمتوں سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس تیزی سے اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بندشیں ہوئیں، جس سے لوگوں کی اپنی اور اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔ کئی دہائیوں سے یہ مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ڈیٹرائٹ میں وبائی امراض کے دوران پانی بند کرنا بھی ایک قدم تھا۔ لیکن شہر میں پانی کی بندش پر عائد پابندی جنوری میں ختم ہو گئی تھی، اور اب کمیونٹی قابل استطاعت پروگراموں پر زور دے رہی ہے جو لوگوں کو ان کے گھروں میں پانی کی فراہمی ممکن بنائیں۔کیلیفورنیا کی وسطی وادی میں، زمینی آلودگی اور کثرت سے استعمال نے بہت سی کمیونٹیز کو خشک کنویں یا پانی چھوڑ دیا ہے جو پینے کے لیے غیر محفوظ ہے۔ یہ کم آمدنی والے خاندانوں کو اپنے پانی کے لیے دو بار ادائیگی کرنے پر مجبور کرتا ہے: ایک بار وہ نل کے پانی کے لیے جو وہ نہیں پی سکتے اور دوسرا مہنگا ٹرک میں یا بوتل بند پانی کے لیے تاکہ وہ کھانا پکا سکیں اور نہا سکیں۔ دس سال پہلے، کیلیفورنیا نے پانی کے انسانی حق کو تسلیم کیا، اور مزید کمیونٹیز کو محفوظ پانی کی فراہمی سے جوڑنے کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن یہ مسئلے اب بھی موجود ہیں۔موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا میں معاشی عدم مساوات کو بڑھا رہی ہے اور پانی کے نظام پر دبا ڈال رہی ہے۔ ہر سال، شدید موسم سیلاب، پھٹنے والے پائپ، سیوریج کے رسا اور دیگر بحرانوں کا سبب بنتا ہے جو لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنے پر مجبور کرتے ہیں اور خاندانوں کو مہینوں تک اس مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ آب و ہوا کے لئے لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر یا تباہی سے بحالی کی لاگت اٹھانے کے بعد ان خاندانوں کے پاس پانی کی دستیابی ممکن بنانے کیلئے وسائل نہیں ہوتے۔جو اس ملک میں کم آمدنی والے لوگوں کا بڑا مسئلہ ہے ۔اگر امریکہ جیسے ملک کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں پر بہت سارے لوگ صاف پانی سے محروم ہیں تو ترقی پذیر ممالک کی صورتحال کیا ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں دیکھا جائے تو اس وقت عالمی برادری آپس میں برسرپیکار ہے اور اس کے وسائل جنگوں کی نذر ہو رہے ہیں ایسے میں پانی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی اگر ممکن نہ رہے تو اس سے بڑھ کر ناعاقبت اندیشی کیا ہوگی۔
(بشکریہ دی نیوز، تحریر،مونیکا لیوس پیٹرک ‘
ترجمہ :ابوالحسن امام)