بھارت مخالف رائے عامہ

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جون دوہزارتیئس میں کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کے قتل اور بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے درمیان ممکنہ روابط کی تصدیق کی‘ جس کے بعد سے بھارت بین الاقوامی تنقید کی زد میں ہے تاہم بین الاقوامی برادری نے اِن الزامات پر غیر معمولی رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اِن الزامات کو نامکمل قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تفتیش کاروں سے تعاون کرے جبکہ دیگر نے اسے بھارت کی عالمی ساکھ خراب کرنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھا ہے خاص طور پر جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے بعد اِسے بھارت کے خلاف سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اب تک صرف پاکستان اور کینیڈا نے غیر ملکی سرزمین پر بھارتی ایجنٹوں کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے ان کی خودمختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کینیڈا اور بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز اقدامات کی مذمت کرنے والے بیانات کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور ان الزامات سے بھارت کو خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تنازعہ سے بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سینٹر فار نیو امریکن سکیورٹی کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر جو بائیڈن نے ان الزامات کو سنجیدگی سے لیا ہے لیکن کینیڈا اور بھارت میں تناو¿ کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ طویل مدت میں‘ بائیڈن انتظامیہ کی بھارت میں سرمایہ کاری کو دیکھتے ہوئے ان الزامات کو فراموش کر دیا جائے گا۔ اسی طرح رینڈ کے ڈیرک گراسمین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے جے شنکر نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا اور کینیڈا کے وزیر دفاع بل بلیئر نے بھی کہا کہ بھارت کے ساتھ کینیڈا کے تعلقات اہم ہیں اور وہ کشیدگی کو مزید بڑھانا نہیں چاہتے۔ یہ الزامات عائد کرنے کے فوراً بعد کینیڈین وزیر اعظم نے بھی اپنے وزیر دفاع کی طرح ہی کم شدت والا مو¿قف اختیار کیا۔ ولسن سینٹر میں ساو¿تھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر شدید تشویش کا اظہار کئے جانے کے بعد اس معاملے پر بات چیت کم ہوئی ہے۔ اِس بحث سے ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ جلد اپنی اہمیت کھو دے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو ماورائے عدالت قتل کے عالمی نیٹ ورک سے نکلنے کا ضمانت نامہ بھی مل سکتا ہے۔نئی دہلی نے واشنگٹن اور دیگر مغربی دارالحکومتوں میں اپنی ساکھ برقرار رکھی ہے اور اپنے خلاف سنگین الزامات کے باوجود‘ بھارت کی ساکھ بچانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اگرچہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر ملکی سرزمین پر قتل میں ملوث ہونے کے بارے میں بھارت کو جوابدہ ٹھہرایا جائے لیکن امریکہ بھارت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے کچھ نہیں کر رہا اور صرف زبانی کلامی مذمت کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر نے بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی پر واشنگٹن میں ماہرین آرا شائع کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کینیڈا کی جانب سے بھارت کے بارے میں الزامات نے امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے‘ کچھ ماہرین نے اسے جمہوریت‘ خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی اقدار کے مسئلے کے طور پر دیکھا ہے ان الزامات کے بعد بھارتی وزیر خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے درمیان ملاقات کے دوران بلنکن نے اپنے ہم منصب کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا اور بھارت پر زور دیا کہ وہ کینیڈا کی تحقیقات میں تعاون کرے۔ بھارت اور کینیڈا کے درمیان الگ سے سفارتی تنازعہ شدت اختیار کرنے لگا ہے خاص طور پر امریکہ اِن الزامات کے ذریعے بھارت پر دباو¿ ڈال کر اپنے مفادات حاصل کر سکتا ہے تاہم عالمی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے بھارت کے عالمی دہشت گردانہ کردار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)