معاشی ترقی : ویژن پاکستان 2047ئ

مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ”میرا ایک خواب ہے“ نہ کہ ”میرے پاس ایک منصوبہ ہے“ اِس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی لانے کےلئے درحقیقت ایک نظریئے‘ سوچ یا تصور کی ضرورت ہوتی ہے ”میرا ایک خواب ہے“ کا جملہ بصیرت مند قیادت کے جوہر کا اظہار ہے‘ جو نہ صرف ترغیب‘ جذباتی تعلق کا ذریعہ ہے بلکہ یہ عوام کو خوشحالی کی منزل کا احساس اور بامعنی سیاق و سباق بھی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اس بصیرت کو عملی جامہ پہنانے کےلئے قربانیاں دے سکیں۔بصیرت اہم ہوتی ہے جو اپنے اندر تبدیلی میں دلچسپی رکھنے والوں کےلئے نقصانات اور غیریقینی رکھتی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ موجودہ صورتحال آپ کےلئے کتنی ہی خراب ہے‘ لیکن یہ معلوم اور جانا پہچانا عمل ہے تبدیلی کےلئے ضروری ہے کہ کوئی شخص اپنی موجودہ حیثیت اور معمولات کو ترک کر دے اور اِس سے ایک غیر یقینی مستقبل کی شروعات ہوتی ہے امید میں فوائد چھپے ہوتے ہیں جو قربانیوں سے زیادہ ہوتے ہیں ایک ویژن غیر یقینی کی دھند میں رہنمائی کا راستہ ہوتا ہے‘ جو لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کی قربانیاں قابل قدر ہیں‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی کےلئے عوام کی جذباتی وابستگی اور دلی تعلق ضروری ہے جذبات تبدیلی کےلئے وابستگی کو فروغ دیتے ہیں جبکہ عقل یا منطق اس کی پیروی کرتے ہیں لوگوں کو قائل کرنا‘ اُن کی حوصلہ افزائی کرنا اور جذباتی طور پر مشغول کرنا تبدیلی حاصل کرنے کی سمت اُٹھایا گیا پہلا قدم ہے جو ویژن (یعنی بصیرت) کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے مثال موجود ہے کہ ’میجی ماڈرنائزیشن‘ جاپان کے ماڈل پر جنوبی کوریا کو صنعتی معیشت میں تبدیل کرنے میں جنرل پارک چنگ ہی کے ویژن کی طاقت تھی جس کی وجہ سے جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 146ڈالر سے بڑھ کر قریب تیس ہزار ڈالر تک پہنچ گئی چاہے امریکہ کا اعلان آزادی ہو‘ سعودی عرب کا ویژن 2030ءہو یا ایپل کمپنی کی دیوانہ وار مہم‘ ہر ایک ویژن میں نئے خوشحال مستقبل کی اُمید چھپی ہوئی ہے گزشتہ تیس سال کی گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تکلیف دہ معاشی اور سماجی تقسیم کے دور سے گزر رہا ہے روزگار یا دولت پیدا کرنے کےلئے جدوجہد جاری ہے جس کی وجہ سے ملک سے مالی اور انسانی سرمائے دونوں کی بیرون ملک منتقلی ہو رہی ہے اس صورتحال نے عدم اطمینان کو جنم دیا ہے اور یہ ہمارے سیاسی و سماجی عدم استحکام میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے لہٰذا ہمارے معاشی ماڈل میں تبدیلی کی ضرورت ہے ہماری معاشی تبدیلی کو فوجی‘ سیاسی اور سول سروس کی مشترکہ قیادت کے تحت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے‘ ایس آئی ایف سی کے پاس سرمایہ کاری اور برآمدات کے ذریعے معاشی بحالی کےلئے تمام سرکاری محکموں کو متحرک کرنے کا وسیع پالیسی مینڈیٹ ہے۔ جس کے تحت متعدد کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں جیسا کہ ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور تکنیکی برآمدات کو آسان بنانے کےلئے غیر ملکی کرنسی کمانے کے ضوابط میں تبدیلیاں کرنے سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں تاہم ’ایس آئی ایف سی‘ کے اقدامات کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اکثر عوام کے ساتھ مفاد پرست گروہوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت کی جاتی ہے یہ غلط فہمیاں پالیسی اقدامات اور معاشی تبدیلی کے سیاق و سباق کے درمیان دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جس میں ’ایس آئی ایف سی‘ کام کر رہا ہے‘ مثال کے طور پر‘ غیر قانونی افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ‘ جو غیر مقبول اور انتہائی تنقیدی اقدام ہے اگرچہ یہ تکلیف دہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے لیکن یہ افغانستان میں اسمگلنگ کے ذریعے روزانہ پندرہ ملین ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراج کو روک رہی ہے جو معاشی بحالی کے لئے ضروری ہے۔ فریڈرک نطشے نے کہا تھا ”جس کے پاس جینے کی وجہ ہو‘ وہ کسی بھی طرح کے حالات و مشکلات برداشت کرسکتا ہے“ لہٰذا ایس آئی ایف سی کو پالیسی سازی سے آگے بڑھ کر اس بات سے شروعات کرنی چاہئے کہ خوشحال معیشت اور پھلتے پھولتے معاشرے کےلئے قربانیاں کیوں ضروری ہیں‘ ایک بار جب پاکستان کے عوام اِس ویژن کو اپنا لیں گے‘ تو پھر وہ اس بات کی حمایت کرتے ہوئے متحد بھی ہوجائیں گے کہ معاشی ترقی کے اس ویژن کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے۔ ایس آئی ایف سی کو پالیسی ایکشن کے ساتھ ملک کے معاشی ویژن کی تشکیل میں بھی سوچ بچار اور قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ یہ ویژن ہمارے ماضی سے خوشحال مستقبل کی طرف چلنے یا اپنی روزمرہ کی جدوجہد کو بہتر مستقبل کی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے ایک پل جیسا کام کرتا ہے اور یہی ویژن درحقیقت قوم کے فکروعمل اور محنت و قربانی کے عزم کو کےلئے بھی باعث تقویت ثابت ہو گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ملک اے جلال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)