پاکستان کو بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضوں‘ آئی ایم ایف کی پالیسیوں اور صنعتی بندشوں کی وجہ سے شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے جس میں بھاری شرح سود‘ برآمدات میں سست روی‘ بڑھتی ہوئی درآمدات‘ ناقص تعلیمی نظام اور ناکام عدالتی نظام بھی شامل ہیں۔ ہمارے پاس بین الاقوامی جدت طرازی کو اپنانے کی لگن اور جستجو کا بھی فقدان ہے‘ ہمارے تعلیمی ادارے بڑے پیمانے پر جدت کو نظر انداز کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے اور وہ بہتر معاشی مستقبل کیلئے بیرون ملک نقل مکانی کر رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کےلئے ماضی سے چھٹکارا حاصل کرنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اور اگر وہ ماضی میں پھنسی رہے تو بدترین صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اِس لئے پاکستان کو ایک واضح ویژن اور عمل درآمد پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ ویلیو ایڈڈ قدرتی وسائل پر مبنی معیشت کو استوار کر سکے جو ٹیکنالوجی پر مبنی ہو اور جو اعلیٰ اقدار پر مبنی علمی معیشت پر انحصار کرے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کےلئے ضروری ہے کہ قومی روڈ میپ تیار کیا جائے اور یہ روڈ میپ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہو جیسا کہ اقوام متحدہ نے وضع کر رکھا ہے۔ اس مشق میں ترقی کےلئے قلیل‘ درمیانی اور طویل مدتی حکمت عملی تیار کرنے سے پہلے نجی شعبے‘ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ مشاورت شامل ہے۔ اس طرح کی ایک مشق سال دوہزار تین سے دوہزار پانچ کے درمیان راقم الحروف کی نگرانی میں کی گئی جسے وفاقی کابینہ نے منظور کیا لیکن اس پر عمل درآمد حکومت تبدیل ہونے کے ساتھ جاری نہ رہ سکا۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کو اس طرح کی مشقوں میں شامل کیا جائے تاکہ جب وہ حکومت میں آئیں تو ماضی کی حکمت عملیوں کو ناسمجھی میں ترک نہ کریں۔ تعلیم‘ صحت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ جدت طرازی‘ زراعت‘ توانائی‘ پانی‘ برآمدات میں اضافے اور دیگر انتہائی اہم شعبوں میں پالیسیوں کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں
کے درمیان اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قومی ترقی میں نجی شعبہ اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کا کردار بنیادی طور پر انٹرپرینیور شپ اور انڈسٹریلائزیشن کے عمل کو آسان بنانا ہے۔ یہ کام سرمائے اور معلومات تک رسائی یقینی بنانے‘ انتہائی ہنر مند افراد کی تربیت اور معیار سے متعلق خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس ترقیاتی عمل میں‘ عوامی پالیسیاں جیسا کہ مائیکرو سطح پر سماجی‘ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں اور سیکٹرل سطح پر صنعتی پالیسیاں نیز قانون سازی (جیسے منتخب دانشورانہ ملکیت کا تحفظ‘ مسابقتی قوانین اور تیز تجارتی عدالتیں) انٹرپرینیور شپ کے عمل کو آسان بنا سکتی ہیں۔ اس سب کو دور اندیش سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی کے ساتھ پورا کیا جانا چاہئے جو اعلیٰ سطح کے انسانی وسائل کی تربیت‘ ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور نجی فرموں کو بیرونی ٹیکنالوجی اپنانے کی صلاحیت بڑھانے کا ذریعہ سمجھیں اور اِس متعلق ترغیبات پر توجہ مرکوز کریں۔ ویلیو ایڈڈ اشیا اور خدمات (جیسے ویکسین‘ الیکٹرانکس‘ انجینئرنگ سامان‘ آٹوموبائل وغیرہ) کی پیداوار کیلئے مشترکہ منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ تعاون سے پاکستان کو اپنی مقامی ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ عمومی نقطہ نظر کے بجائے مصنوعات پر مبنی نقطہ نظر وقت کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر‘ حکومت دوا سازی کے شعبے میں ویکسین‘
بائیوسیملرز‘ نینو فارماسیوٹیکلز اور نیوٹراسوٹیکل کی تیاری میں سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر ونڈ ملز‘ اگلی نسل کے شمسی پینل اور ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کی تیاری اور برآمد کی طرف جانا چاہئے۔ معدنیات کے شعبے میں ہمیں خام مال کی برآمد پر پابندی عائد کرنی چاہئے اور مشترکہ منصوبوں کو آسان بنانے کے بعد ہی تیار شدہ ہائی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمد کی اجازت دینی چاہئے۔ زراعت کے شعبے میں حلال فوڈ کی برآمدات‘ ماہی گیری‘ پھلوں اور سبزیوں کی پروسیسنگ اور برآمد کے ساتھ نامیاتی کپاس اور اس کے تصدیق شدہ ٹیکسٹائل میں بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ ایسے تمام شعبوں میں حکومت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کی مشاورت سے واضح طویل المیعاد پالیسیاں وضع کرے۔ ہنرمند افرادی قوت کی تربیت کی جائے اور ٹیکس مراعات فراہم کی جائیں۔ پاکستان کی اصل دولت نوجوان ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں میں ترقی مضمر ہے۔ نئے خیالات‘ عمل‘ ٹیکنالوجیز اور مصنوعات کی ترقی و اطلاق کا احاطہ کرتے ہیں جس سے معاشی ترقی‘ معیار زندگی میں بہتری اور مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے‘ جدت طرازی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی میں اضافہ کرکے معاشی ترقی کیلئے محرک کے طور پر کام کرتی ہے اور اس طرح مجموعی طور پر جی ڈی پی میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ نئے کاروباری مواقع پیدا کرتی ہے اور جدید صنعتوں کی تخلیق ہوتی ہے‘ جدت طرازی معیشتوں کو تبدیل کرنے کے سب سے بنیادی طریقوں میں سے ایک آر اینڈ ڈی ہے جس میں نمایاں سرمایہ کاری ہونی چاہئے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اور نجی شعبے تحقیقی سرگرمیوں اور ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ کے لئے خاطر خواہ وسائل مختص کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری نہ صرف جدید ٹیکنالوجیز کی دریافت کو فروغ دیتی ہے بلکہ پائیدار اقتصادی ترقی کے لئے ایک مضبوط بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ (مضمون نگار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی اور سابق سربراہ ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)