خام تیل عالمی بحران؟

اُنیس اکتوبر 1973ءکو امریکی انتظامیہ کی جانب سے یوم کپپور جنگ کے بعد اسرائیل کو دو اعشاریہ دو ارب ڈالر کے فوجی امدادی پیکج کی توثیق کے فوراً بعد‘ عرب ریاستوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر تیل کی پابندی عائد کر دی۔ اس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ امریکہ میں چند مہینوں میں پٹرول کی قیمتوں میں چالیس فیصد تک اضافہ ہوا‘ جس کے نتیجے میں ایندھن کے وسائل کی راشننگ ہوئی‘ امریکہ بھر میں گیس سٹیشنوں پر گھنٹوں لمبی قطاریں لگ گئیں اور اندرون ملک سیاست میں پولرائزیشن ہوئی۔ اس نے امریکی توانائی کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی پر مجبور کیا‘جس میں گھریلو تیل کی پیداوار میں اضافہ اور اسٹریٹجک پٹرولیم ریزرو (ایس پی آر) کا قیام شامل ہے۔ اس طرح تقریباً پانچ دہائیوں کے بعد امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں اور کچھ تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ ملک آج تیل کی قیمتوں میں اضافے کےلئے کم خطرے میں ہے اور اگر یہ غزہ میں اسرائیل کی حالیہ جنگ کے وسیع تر علاقائی اضافے کے نتیجے میں ہوتا ہے تو تیل کی منڈیوں میں خلل کا مقابلہ کر سکتا ہے تاہم زمینی حالات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی توانائی کی آزادی کے دعوے مبالغہ آرائی ہو سکتے ہیں۔اسرائیل کی طرف سے جنگ نے تیل کی عالمی مارکیٹ کو کچھ نقصان پہنچایا ہے۔ سات اکتوبر کو تنازع کے آغاز کے بعد برینٹ خام تیل کی قیمتیں بنیادی طور پر نوے ڈالر سے سو ڈالر فی بیرل کے درمیان منڈلا رہی ہیں، جو آٹھ اکتوبر کو اٹھاون ڈالر فی بیرل تھیں۔ نہ تو اسرائیل اور نہ ہی محصور غزہ تیل پیدا کرنےوالے اہم ممالک ہیں اور اب تک کسی بھی علاقائی مداخلت نے مشرق وسطیٰ کے تیل کی فراہمی کو متاثر نہیں کیا ہے تاہم مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ علاقائی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں تیل کی عالمی قیمتوں میں جھٹکے کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے عالمی بینک کے مطابق جنگ کی وجہ سے تیل کی فراہمی میں معمولی خلل کا شکار ہوئی ہے اور موجودہ جنگ تیل کی قیمتوں کو ترانوے ڈالر سے ایک سو دو ڈالر فی بیرل تک لے جاسکتا ہے۔ تیل کی رسد میں درمیانی خلل کا موازنہ دوہزارتین کی عراق جنگ کے دوران دیکھا گیا تھا جب تیل کی قیمتوں کو ایک سو نو ڈالر سے ایک سو اکیس ڈالر فی بیرل تک بڑھایاگیا اور رسد میں بڑی رکاوٹ جیسا کہ 1973ءکی عرب تیل کی پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹ بنی تھی۔تیل کی فراہمی میں خلل مختلف عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں بشمول تیل کی تنصیبات کی بندش یا تیل پائپ لائن میں خلل شامل ہیں۔ آبنائے ہرمز‘ باب المندب اور نہر سوئیز سمیت تین بڑے شپنگ چوک پوائنٹس کے ذریعے سمندری نقل و حمل کےلئے سکیورٹی خطرات میں اضافہ ہوا ہے یا بدترین صورت میں آبنائے ہرمز کی ناکہ بندی‘ جو دنیا کی سمندری تیل کی ترسیل کے تیس فیصد کی نقل و حمل کےلئے ذمہ دار ہے اور منتخب ریاستوں کے خلاف تیل کی برآمد میں کٹوتی ہوئی ہے‘ اسرائیل کی غزہ پر مسلط جنگ سے پہلے‘ امریکہ نے سال دوہزار دو میں یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں تیل کی عالمی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کی اور بعد میں سعودی عرب اور کچھ دیگر اوپیک ممالک کی طرف سے ایس پی آر کا استعمال کرتے ہوئے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کی۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں پر واشنگٹن کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ گزشتہ سال ریکارڈ کمی کی وجہ سے ایس پی آر چالیس سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ اس تناظر میں‘ آج ذخائر میں خام پٹرولیم کے 351 ملین بیرل ہیں اور دوہزاردو میں‘ امریکہ میں روزانہ پٹرولیم کی کھپت اوسطاً 20 ملین تھی۔ مزید برآں دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود امریکہ خام تیل کا خالص درآمد کنندہ رہا ہے۔ درآمد شدہ تیل پر انحصار کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے اندر کئی ریاستوں میں تیل کی پیداوار‘ ریفائننگ یا نقل و حمل کےلئے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے اور ایندھن کی طلب کو پورا کرنے کےلئے درآمدات اور مہنگے نقل و حمل کے طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاو¿ہ ملک کا ایک بڑا حصہ میٹھا اور ہلکا تیل پیدا کرتا ہے جبکہ اس کی ریفائننگ کی صلاحیت بھاری اور کم میٹھا تیل سے نمٹنے کےلئے تیار ہے۔ خام تیل امریکہ میں پٹرول کی پیداوار کےلئے اہم ان پٹ لاگت ہے اور تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) کی نمائندگی کرنےوالے گھریلو سپاٹ خام تیل کی قیمتوں کے بجائے بین الاقوامی سپاٹ خام تیل کی قیمتیں برینٹ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ امریکہ میں پٹرول کی قیمتوں کا زیادہ اہم پیش گوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ مو¿خر الذکر ڈبلیو ٹی آئی کے بجائے برینٹ کے ساتھ حرکت کرتا ہے‘ جو امریکہ میں پیدا ہونے والے تیل کی نمائندگی کرتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ کرکے متعدد خدمات اور صارفین کی اشیا کی قیمتوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق مشرق وسطیٰ کے بحران میں اضافے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے کھاد و خوراک کی پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زہرا نیازی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)