تعلیم مکمل کرنےوالے طلبہ (فریش گریجویٹس) عموماً شکایت کرتے ہیں کہ اُنہیں ملازمت نہیں ملتی لیکن اگر کوئی واقعی کام کی تلاش میں ہے تو خود روزگار کے موجود لاتعداد مواقعوں سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اِس سلسلے میں گردوپیش میں موجود کاروباری حالات اور کھپت کا جائزہ لے سکتا ہے جس ایک بنیادی بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ نہ صرف خود روزگاری کے مواقع موجود ہیں بلکہ اس بارے میں رہنمائی کرنے کےلئے پیشہ ورانہ کوچنگ کی صنعت بھی اپنی جگہ موجود ہے جو مسائل کا حل بتاتی ہے توجہ طلب ہے کہ بہت سی ایسی ذمہ داریاں بھی ہیں جو آجروں سے متعلق ہیں اور یہ صرف چند اشارے ہیں جن پر توجہ کر کے ایک بہترین عملی زندگی کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور اس سے نئے آنےوالوں کو بھی خبردار کرنا چاہئے کہ مضامین اور بلاگز میں پائے جانےوالے مغربی مبصرین کی بیان بازی پاکستان کی زمینی صورتحال سے مختلف ہوسکتی ہے کام کاج کی جگہوں پر پیشہ ورانہ تعلقات خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں آپ کے پیشہ ور ساتھی دوستوں کی طرح نہیں اور یقینی طور پر اہل خاندان کی طرح بھی نہیں ہوتے لہٰذا اُن سے تعلقات استوار کرنے میں ایک خاص قسم کی احتیاط کرنی چاہئے عمر پرستی‘ عمر رسیدہ افراد کےخلاف امتیازی سلوک‘ کام کاج کی جگہوں کا عمومی مسئلہ ہے جس کے بارے میں اکثر مغرب میں بات کی جاتی ہے اور یہ ہمارے مقامی سیاق و سباق میں بھی پایا جاتا ہے تاہم
پاکستان میں کام کاج کی جگہوں میں کہیں زیادہ عام مسئلہ نوجوانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے ممکنہ طور پر ہماری ثقافت میں بزرگوں کو دی جانےوالی عزت کا بڑا مقام ہے۔ انتظام کی ایک خاص سطح تک پہنچنے کےلئے‘ آپ کو اس حصے کو دیکھنے کی ضرورت ہے چند برس پہلے مجھے ایک گفتگو کا علم ہوا جس میں تیس سال کی عمر کے ایک شخص نے اعتراف کیا کہ اسے اپنا دس کلو گرام وزن بڑھانا ہے اور اُسے اپنی داڑھی بھی بڑھانی ہے تاکہ اس کے آجر کی طرف سے اُسے زیادہ سینئر عہدہ ملنے پر غور کیا جا سکے عمر اور (سروس) سنیارٹی اکثر سرکاری شعبے کے اداروں میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے اگرچہ نجی شعبے کے اداروں پر ایک جیسے قواعد و ضوابط لاگو نہیں ہوتے لیکن بہت سے لوگوں کو منیجر کے طور پر قدرے کم عمر کسی کو قبول کرنے میں دشواری ہوتی ہے‘ بھلے ہی وہ منیجر زیادہ تجربہ کار‘ قابل اور اہل ہو اگرچہ یہ آپ کی پہلی ملازمت میں کم مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کو اپنے سے زیادہ عمر کا دکھانا نہیں چاہتے تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اکیسویں صدی میں‘ مجھے اس طرح کے روئیوں کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بہت کم ایسی کام کاج کی جگہیں ہیں جو دفتری سیاست سے آزاد ہوں بعض اوقات ملازمین کو ’کیمپوں یا گروپوں‘ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اِنٹری لیول کے ملازم کی حیثیت سے‘ آپ کو انٹرا آفس ’پولیٹیکل شطرنج‘ آنی چاہئے۔ دفتر میں سب سے زیادہ وہی ملازم ترقی کرتا ہے جو سب سے زیادہ خود کو تبدیل کرنے والا ہوتا ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنے کےلئے منصوبہ بندی کرتا ہے چاہے اُسے دوسروں کی حق تلفی بھی کرنا پڑے لیکن وہ اپنے مفاد کے لئے خود سے اصول وضع کرتا ہے اُور پھر اِن اصولوں پر عمل کرتا ہے۔ ایسے کسی بھی ڈرامے اور ڈرامے باز سے دور رہنے میں بہتری ہے اور ملازمت کرنے کی صورت میں اگر کوئی نوجوان خود کو دفتر کی افواہوں اُور ڈراموں سے جس قدر دور رکھے اُتنا ہی اُس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔بہت سارے اشتہاری عہدے جو انٹری لیول ہوسکتے ہیں یا ہونا چاہئے کام کے تجربے سے متعلق ہوتے ہیں عموماً کوئی آجر کام کا بوجھ کم کرنے یا اُسے تقسیم کرنے کےلئے ملازمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ چیزوں کو آسان بنایا جائے جب کام کاج کی جگہوں پر کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑے تو کسی اور کے مطالبہ کرنے سے پہلے ملازم کو چاہئے کہ وہ معاملات کو خود ہی سمجھنے اُور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بات خاص اہمیت رکھتی ہے کہ جب آپ کسی مسئلے کو دیکھتے ہیں‘ تو آپ کا فوری رد عمل کیا ہوتا ہے۔ملازمین کو چاہئے کہ وہ خود کو قابل اعتماد اور ہر وقت دستیاب رہنے جیسی ساکھ کا حامل بنائیں۔ وقت کار کی سختی سے پابندی کریں۔ دفتر کے نظم و نسق سے متعلق قواعد کو سمجھیں، اُن سے خود کا آشنا رکھیں اور اُن پر عمل درآمد کریں۔ اگر کوئی ملازم اپنی ملازمتی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہوتا ہے تو اُسے کسی سیاست یا کسی کی مہربانی کی محتاجی نہیں رہتی اُور اُس کی عملی زندگی کے بارے میں ترجیحات بھی واضح رہتی ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایک ایسا عملی شخص بننے کی کوشش کرنی چاہئیں‘ جو اپنی ذمہ داریاں باقاعدگی سے ادا کرنے کےلئے ہر وقت بے چین رہے‘ محاورہ ہے کہ ہر شخص کی اپنی الگ قبر ہوتی ہے اگر کوئی شخص دفتری وسائل کا استحصال کر رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ اُس کی چالاکیوں کا دوسروں کو علم نہیں ہے تو یہ اُس کی بیوقوفی ہے درحقیقت صرف افراد ہی نہیں بلکہ در و دیوار کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ دفتری ماحول میں دوسروں کے معاملات سے الگ رہنے اور اپنی ذات میں سچائی پر جمے رہنے ہی میں کامیابی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)