کون نہیں جانتا کہ فضائی آلودگی پاکستان کیلئے مستقل اور بڑھتا ہوا خطرہ ہے؟ لاہور‘ فیصل آباد‘ کراچی اور اب اسلام آباد دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک بن کر ابھرے ہیں فضائی آلودگی کی تین وجوہات ہیں ایک گاڑیوں سے دھویں کا اخراج‘ صنعتوں سے دھویں کا اخراج اور فصلوں کی باقیات جلانا‘ گاڑیوں سے نکلنے والے اخراج سے کاربن مونو آکسائیڈ‘ نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر ماحول دشمنی ذرات آلودگی کی صورت خارج ہوتے ہیں اور فضا میں پھیل جاتے ہیں۔ ہمیں گردوپیش میں ایسی بہت سی موٹرگاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں دھویں کے اخراج کو کنٹرول کرنے کا سسٹم نہیں ہوتا اور یہ فضائی آلودگی میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔پاکستان کی صنعتیں آلودگی کو خارج کرنے میں مصروف ہیں اِس قسم کا طرزعمل دنیا کے دیگر حصوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاور پلانٹس‘ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس انڈسٹری‘ روایتی اینٹوں کے بھٹے‘ کیمیکل اور پیٹروکیمیکل صنعتوں کو نہ تو مناسب طریقے سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی مناسب طریقے سے اِن کی نگرانی کی جاتی ہے حکومت آلودگی کے خوفناک خطرے پر قابو پانے سے سختی سے انکار کر رہی ہے اور ماحولیاتی دہشت کے حوالے سے حال و مستقبل کی پیش گوئی کر رہی ہے اس کے بعد بائیوماس جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین اور غیر مستحکم نامیاتی مرکبات شامل ہوتے ہیں‘ شدید سانس کے انفیکشن کے چار کروڑ کیسز اور فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت اموات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے حکومتی ادارے فضائی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف خاطرخواہ ریگولیٹری اقدامات نہیں کرتے‘ قانون و قواعد موجود ہیں لیکن اُن کامحدود نفاذ اور اُن کی روشنی میں محدود نگرانی کی جاتی ہے فضائی آلودگی کی وجہ سے حکومت کو ہر سال صحت عامہ پر پہلے سے زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے‘فضائی آلودگی سے نمٹنے کیلئے حکومت کو تین کام کرنے چاہئیں: سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے فضائی آلودگی پھیلانے والوں کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے۔ زمینی معائنہ اور ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے اسٹیشنوں کا استعمال کیا جائے اور فضائی آلودگی کا اخراج کرنے کے سخت معیارات متعارف کرائے جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے عوامی نقل و حمل کو فروغ دیا جائے اور فصلوں کی باقیات جلانے کے واقعات کم کرنے کیلئے بھی عملی اقدامات کئے جائیں۔ حکومت کو فضائی معیار کے رجحانات کی نگرانی کرنی چاہئے‘ شہری علاقوں میں فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے موثر پالیسیوں کو نافذ کرنا ضروری ہے اور اِن سے متعلق عوامی آگاہی کا فروغ بھی وقت کی ضرورت ہے۔فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کا علاج معاشی بوجھ ہے‘ خراب ہوا کے معیار کا افرادی قوت کی پیداواری صلاحیت پر بھی براہ راست منفی اثر پڑ رہا ہے‘ فضائی آلودگی ہماری فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے‘ فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا مطلب پیداوار میں کمی اور کسانوں کی آمدنی پر منفی اثر ہے‘ پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے سالانہ پچاس ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے‘ پاکستان اب دنیا کا چوتھا آلودہ ترین ملک ہے‘ شہری علاقوں میں فضائی آلودگی ایک عام پاکستانی کی عمر کو تقریباً سات سال تک کم کر دیتی ہے‘ 1998ء سے 2021ء تک اوسط سالانہ آلودگی میں قریب پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اِسی عرصے کے دوران متوقع عمر میں ڈیڑھ سال کی کمی واقع ہوئی ہے‘ صحت عامہ‘ ماحولیات اور ملک کی مجموعی فلاح و بہبود کیلئے فضائی آلودگی شدید خطرہ ہے۔ اگر حکومت اب بھی ضروری عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ طرز عمل ایک بڑی تباہی کی طرف پیش قدمی ہو گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اعمال کی اصلاح کی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)