غزہ میں بڑھتے ہوئے اسرائیلی تشدد سے آنے والے ”سی او پی 28“ ماحولیاتی سربراہ اجلاس پر سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں کیونکہ آب و ہوا کے بارے میں ہونے والی عالمی سطح پر بات چیت کو بھی سیاست اور ممالک کے درمیان اختلافات کی نذر کر دیا گیا ہے جبکہ دنیا تحفظ ماحول کی کوششوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے اختلافات مٹائے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے انسانیت کا وجود خطرہ میں ہے۔ غزہ میں خوفناک انسانی بحران بھی عالمی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو غیر یقینی بنانے کا باعث بنے گا۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ترقی پذیر ممالک آب و ہوا کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کےلئے مدد کی ضرورت ہے لیکن عالمی حالات ایسے ہیں کہ اِن میں کسی بھی مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنا آسان نہیں ہے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں نسل کشی جاری ہے جسے امریکہ اور مغرب سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی بھی واضح حمایت حاصل ہے اور اِس صورتحال سے عالمی چیلنجوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ عالمی جنوب میں اس بات پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اسرائیل کو غزہ پر حملہ کرنے کےلئے غیرمشروط اجازت دے رکھی ہے اور کس طرح ہتھیار و مالی مدد فراہم کر کے اسرائیل کے حوصلے بلند کر رہا ہے جسے مغربی حکومت کی جانب سے بھی مکمل حمایت کی وجہ سے مزید تقویت ملی ہے۔ مغرب پر بجا طور پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت تیئس لاکھ شہریوں کو ہلاک کرنے کےلئے اسرائیل کی جانب سے طاقت کے غیر متناسب استعمال کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ظالموں اور ظلم کرنےوالوں کا ساتھ دے کر وہ دنیا میں انسانی حقوق کے چیمپیئن کی حیثیت سے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں کیونکہ بے شمار شہریوں کو اس غیر انسانی حمایت کےخلاف احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ان کے دوہرے معیار کا اندازہ نئی دہلی میں ہونےوالے حالیہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے اعلامیے سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کو برقرار رکھنے کےلئے یوکرین کے شہریوں پر روس کے حملوں کی مذمت کی گئی تھی المیہ یہ ہے کہ وہ سبھی ممالک جو روس کی مذمت کرتے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی حمایت کر رہے ہیں جس نے غزہ پر پانی‘ بجلی‘ گیس کی فراہمی بند کر رکھی ہے جس نے ہسپتالوں‘ سکولوں اور ایمبولینسوں پر بمباری کی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہونے کی اجازت دی گئی ہے جب دنیا کو اجتماعی طور پر آب و ہوا کی تبدیلی روکنے کےلئے کوششوں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ بڑھتے ہوئے عدم اعتماد نے گلوبل نارتھ اور گلوبل ساو¿تھ کے درمیان تعلقات کے فرق کو بڑھا دیا ہے جس سے ”سی او پی 28“ اور اس سے آگے کے مذاکرات مزید تناو¿ کا شکار ہوں گے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آب و ہوا کے تحفظ کے علمبرداروں اور پسماندہ طبقات کے درمیان تقسیم کبھی اِس قدر وسیع نہیں دیکھی گئی جس قدر آج دیکھی جا رہی ہے۔ مغربی منافقت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ دوسروں کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے اپنی حفاظت کرے۔ دنیا کو آب و ہوا کے انصاف کی بھی ضرورت ہے اور اِسے بطور تحریک آگے بڑھانا چاہئے۔رواں سال کے دوران‘ ماحولیاتی نقصانات فنڈ جسے ایل اینڈ ڈی فنڈ بھی کہتے ہیں تشکیل دیا گیا اور اِس سے متعلق ٹیکنیکل کمیٹی (ٹی سی) کے پانچ اجلاس ہوئے جس میں ترقی یافتہ ممالک کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور ایک طرح کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تحفظ ماحول کی کوششوں کےلئے مرتب کردہ لائحہ عمل کے متن سے ذمہ داری‘ معاوضہ اور مشترکہ جیسے الفاظ منہا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پانچویں ’سی او پی 28‘ اجلاس کی سفارشات پر پیش رفت (عمل درآمد) کےلئے امریکہ اور دیگر رکن ممالک کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ ایل اینڈ ڈی فنڈ کے آپریشنل ہونے کے بارے میں سال بھر جاری رہنے والے مکالمے میں ترقی یافتہ ممالک نے نئے فنڈ کی وسعت اور گہرائی کم کرنے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی توجہ صرف ورلڈ بینک پر ہے تاکہ ’ایل اینڈ ڈی فنڈ‘ پر کنٹرول رکھا جا سکے۔ گلوبل سٹاک ٹیک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا کے بحران کے بارے میں موجودہ عالمی کوششیں ناکافی ہیں اور پیرس معاہدے کے اہداف حاصل کرنے کےلئے بہت ہی کم کوششیں ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات (سی او پی 28) کے اہم مینڈیٹ میں گلوبل سٹاک ٹیک اور ماحولیاتی تبدیلی سے ہونےوالے نقصانات کو کم کرنے کےلئے اقدامات شامل ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کی جانب سے یہ انوکھا نقطہ نظر ترقی پذیر ممالک کی جدوجہد کو مزید تقویت دے رہا ہے جو آب و ہوا کے بحران سے زیادہ متاثر ہیں اُور آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ہونے کے ساتھ عالمی انصاف کےلئے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں ب جبکہ دنیا آب و ہوا کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہے‘ اِس سلسلے میں کوششیں اگر مزید تاخیر کا شکار ہوئیں تو قدرتی آفات کا براہ راست خمیازہ بھگتنے والے ممالک کے رہنے والوں کو مزید جانی و مالی نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)