واشنگٹن بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں اتحاد قائم کرنے کےلئے کام کر رہا ہے جبکہ چین اپنے عالمی عزائم کو آگے بڑھانے کےلئے مشرق وسطیٰ کا رخ کئے ہوئے ‘جیسا کہ بین ہبرڈ اور ایمی کین نے چین کے مشرق وسطیٰ کے مفادات کے بارے میں اپنے جائزے میں نشاندہی کی تھی صرف جنوری دوہزاربائیس ہی میں تیل سے مالا مال عرب بادشاہتوں کے پانچ سینئر عہدیداروں نے توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں تعاون پر تبادلہ خیال کرنے کےلئے چین کا دورہ کیا انہوں نے خطے میں ہونےوالی پیش رفت کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دہائیوں سے جاری جنگ اور افراتفری سے تنگ امریکہ اپنی شراکت محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ چین خطے بھر میں واشنگٹن کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ عرب رہنما اس بات کو سراہتے ہیں کہ چین جو دیگر ممالک کے معاملات میں ’عدم مداخلت‘ جیسی خوبی کا دعویٰ کرتا ہے‘ ان کی داخلی سیاست میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی غیردوستانہ آمروں کا تختہ الٹنے کےلئے کسی بھی ملک میں اپنی فوج بھیجے گا یوں چین ہر بادشاہت اور ہر جمہوریت کےلئے قابل قبول ہے چین کے صدر ’شی جن پنگ‘ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوکو فروغ دے کر مشرق وسطیٰ پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ چین پہلے ہی بلوچستان کے ساحل پر گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کی تعمیر پر اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے‘ یہ بندرگاہ تین شاہراہوں کے ذریعے چین کے ژیان جیانگ نامی چین کے ایک خود مختار علاقے سے منسلک کر دے گی‘ چین کی سرکاری و نیم سرکاری کمپنیاں گوادر سے زیادہ دور ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں‘ وہ عمان میں ایک صنعتی پارک کے قیام کےلئے بھی مالی اعانت کر رہے ہیں اور ابوظہبی کےساتھ اسرائیل کی دو بندرگاہوں پر ایک کنٹینر ٹرمینل تعمیر کر رہے ہیں اگرچہ امریکہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے ساتھ اتحاد کئے ہوئے ہے لیکن چین نے مشرق وسطیٰ میں اپنے پہلے سے ہی نمایاں اثر و رسوخ کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ چین کے اعلیٰ سفارت کاروں نے تیئس اکتوبر کو اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصبوں کو فون کرکے موجودہ جھگڑے میں تحمل سے کام لینے پر زور دیا تھا۔ موجودہ حالات میں چین کے ایک سینئر سفارت کار نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور وسیع تر جنگ سے بچنے میں مدد کا وعدہ کیا۔ بیجنگ اقوام متحدہ میں بھی سرگرم ہے اس نے سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے پیش کی جانے والی جنگ سے متعلق ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا کیونکہ اِس میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔ بیجنگ کو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دباو¿ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھاچینی سوشل میڈیا
پلیٹ فارم ویبو پر قریب تیس لاکھ فالوورز رکھنے والے ایک بااثر شخص نے اپنے پیغام (پوسٹ) میں کہا ہے کہ وہ حماس کو ”دہشت گرد تنظیم“ کے بجائے ”مزاحمتی تنظیم“ کہنا زیادہ مناسب اور پسند کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں جس طرح جنگ کو ہوا دے رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے حماس نہیں بلکہ امریکہ دہشت گرد ہے جس نے غزہ میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں کی ہیں اور اِن میں نہتے خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اگر چین کو لگتا ہے کہ یہود مخالف تبصروں کو پھلنے پھولنے کی اجازت دینا خطرناک اور پریشانی کا باعث ہے تو انہیں روک دے گا لیکن فی الحال وہ نہیں روک رہا؛ چین پر توجہ مرکوز کرنے والے اسرائیلی تھنک ٹینک ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیریس ویٹ نے کہا ہے کہ واضح طور پر چین کی حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ چین حماس کے تنازعے پر امریکہ کے خلاف یہود مخالف جذبات کے پھیلاو¿ کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف دشمنی کو جغرافیائی سیاسی طور پر مفید دیکھتا ہے کیونکہ یہ عرب ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم مضبوط کرنے کا باعث ہوگاچین قطر گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بندرگاہ بحیرہ عرب کو چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ سے جوڑنے کےلئے بنائی جانےوالی شاہراہوں کا آخری مقام ہوگی ‘موجودہ جنگ میں چین پر ’ایماندار ثالث‘ کے طور پر اعتماد کرنے کی اسرائیل کی آمادگی میں کمی آنے کا امکان ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شاہد جاوید برکی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)