پاک امریکہ پیچیدہ تعلقات


افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات کسی حد تک خوشگوار ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات میں بہتری کا تجربہ کر رہے ہیں بلکہ دونوں کی ایک دوسرے سے توقعات میں کمی آنے کی وجہ سے یہ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ توقعات کی اس کمی کی وجہ سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پہلے سے گردشی تعلقات ہموار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ سال دوہزاراکیس میں پاکستان نے افغانستان سے امریکی انخلا کی حکمت عملی میں فعال طور پر حصہ لیا۔ یہ حصہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے ثالث کے طور پر تھا اور کابل سے امریکہ اور دیگر ممالک کے انخلا میں سہولت فراہم کرکے پاکستان نے امریکہ کی مدد کی تھی۔ یہ وہ تعاون تھا جو پاک امریکہ کے درمیان آخری اہم جغرافیائی تزویراتی تعاون قرار دیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ واقعات کے بعد سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اپنی شراکت داری کو بڑھانے سے توجہ ہٹا رکھی ہے۔ اکتوبر دوہزاردو میں امریکہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی (این ایس ایس) کے اجرا¿ سے امریکہ اور پاکستان کے قومی مفادات میں فرق زیادہ واضح ہوا ہے۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ ’این ایس ایس‘ میں پاکستان کے کردار اور اس سے توقعات کا کوئی ذکر نہیں۔ بہت سے ماہرین نے اِسے ’اچھی علامت‘ سمجھا لیکن یہ قطعی اچھی خبر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد واشنگٹن کو مطلوبہ قابل عمل نتائج فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے تاہم اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی
دوہزاردو میں پاکستان کا کوئی ذکر نہ ہونے کی وجہ اسٹرٹیجک ترجیحات میں تبدیلی آئی تھی۔ امریکہ کے موجودہ اسٹرٹیجک اہداف کا مقصد چین سے مقابلہ اور روس کو محدود کرنا ہے جیسا کہ ’این ایس ایس‘ میں ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان اپنی قریبی اسٹرٹیجک شراکت داری کی وجہ سے نہ تو چین کا مقابلہ کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی روس کو امریکہ کی خواہش کے مطابق روک سکتا ہے۔پاکستان نے دانشمندی سے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں بڑی بین الاقوامی طاقتوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ خاص طور پر حلیف امریکہ اور اس کے سدا بہار دوست چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے اہم فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا دونوں ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ پاکستان کو چٹان اور سخت دیوار کے درمیان کھڑا کرنے کے بجائے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات میں کمی کر دی ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اِسی طرح امریکہ نے سرحدی تنازعات پر چین کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات اور چین سے مقابلہ کرنے کی خواہش کی وجہ سے خطے میں بھارت کو نئے اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر ابھارا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین سے مقابلہ کرنے کے امریکہ کے اسٹرٹیجک مقصد کو بھارت پورا کر سکتا ہے لہٰذا واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان قریبی تعلقات مختلف دو طرفہ اور کثیر الجہتی فورمز پر دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ابھی تک غیر یقینی ہے کہ آیا نئی دہلی واقعی چین کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگا‘ خاص طور پر بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں جیسا کہ ہندوستانی نژاد امریکی ماہر ایشلے ٹیلیس نے اپنے تجزیات میں زور دے کر کہا ہے۔ اسی طرح روس کے ساتھ بھارت کے قریبی اور تاریخی اسٹرٹیجک تعلقات اور دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے توقعات میں بھی ایک نمایاں خامی سامنے آئی ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے اسٹرٹیجک نقطہ نظر کے بڑھتے ہوئے تنوع کے باوجود‘ دونوں ریاستیں کثیرالجہتی تعاون کے ذریعے اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کو بہتر بنا رہی ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات چوراہے پر تھے اور یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا تو اس نازک وقت میں تعاون دیکھا گیا جو خارجہ امور کے علاوہ دیگر شعبوں میں تھا جیسا کہ انسداد بین الاقوامی دہشت گردی‘ اسلحے پر کنٹرول‘ تجارت‘ میڈیا‘ تعلیم‘ جمہوریت اور موسمیاتی تبدیلی وغیرہ۔ یہ سب وہ ڈومینز ہیں جہاں دونوں ریاستوں نے سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے اور تعلقات کو ہموار رکھا ہے۔اکتوبر دو ہزار تیئس میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں ایک بین
الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں امریکہ اور پاکستان کے ممتاز ماہرین نے شرکت کی اور امریکہ اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوو¿ں کا جائزہ لیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات اگرچہ تنزلی کا شکار ہیں لیکن وہ بحران کا شکار نہیں اور واشنگٹن و اسلام آباد تعلقات کی اہمیت کی وجہ سے امریکہ پاکستان سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ تمام مقررین نے تجارت و سرمایہ کاری‘ موسمیاتی تبدیلی‘ صاف توانائی‘ تعلیمی تبادلوں اور عوامی سطح پر رابطوں کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو ترجیح دینے پر زور دیا تھا۔ سردست یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکہ کا عالمی اثر و رسوخ کم نہیں ہو رہا بلکہ وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے تو اسلام آباد کو واشنگٹن سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لئے زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہئے اور ایسے نئے بیانیے تلاش کرنے چاہئیں جس سے امریکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی ضرورت محسوس کرے اور پاکستان کی جانب متوجہ ہو۔ واضح رہے کہ جب بھی امریکی مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہو امریکہ نے ہر سطح پر جا کر پاکستان سے خوشگوار تعلقات استوار کئے‘ ان لمحات میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد میں کافی مدد کی جاتی ہے‘ عوامی سطح پر بھی امریکی امیج بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن مفادات کا خاتمہ یا یوں کہیں کہ ضرورت پوری ہونے پر امریکہ پاکستان سے آنکھیں بھی پھیر لینے میں ذرا سا وقت بھی نہیں لگایا‘ کوشش کی جائے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)