نجکاری اور قومی معاشی مستقبل


پاکستان کی معیشت کو گزشتہ چند برس میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ کچھ ماہ قبل تک ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا کچھ حلقوں کا الزام ہے کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے پر مجبور کر رہی ہے کچھ تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت پر عائد کی ہے اگرچہ ڈیفالٹ کا فوری خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے عبوری سیٹ اپ میں سیاسی استحکام گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں بہتر ہے اِس صورتحال میں سرمایہ کاری کےلئے کئے گئے خصوصی اقدام (ایس آئی ایف سی) کے کردار‘ اس میں فوجی قیادت کی فعال شرکت اور پاکستان کے مستقبل پر اثرات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے‘ ماہرین معاشیات ڈیرن ایسموگلو اور جیمز اے رابنسن نے اپنی کتاب ’وائے نیشنز فیل‘ میں چند ایسے ممالک کی مثال دی ہے جہاں مکمل طور پر فعال جمہوری اداروں کی عدم موجودگی کے باوجود متعلقہ معیشتیں خوشحال ہوئیں ’لی کوان یو‘ کے دور میں چین‘ جنوبی کوریا اور سنگاپور کے ماضی اور موجودہ سیاسی نظام نے معاشی ترقی دیکھی حالانکہ یہ ممالک ویسٹ منسٹر یعنی مغربی جمہوریت کے پیمانوں پر پورا نہیں اترتے اس کے برعکس جمہوری حکمرانی کے تحت بہت سی قومیں جدید معاشی معیارات کو اپنے ہاں رائج نہیں رکھتیں دنیا کے کئی ممالک سے کاروبار کرنے میں آسانی کے معاملے میں پاکستان سب سے نیچے ہے سیاسی عدم استحکام‘ لال ٹیپ ازم‘ غیر ہنر مند مزدور‘ بیوروکریٹک جمود‘ بدعنوانی اور معاہدوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کے نفاذ کی غیر مثالی صورتحال ملک کی پست درجہ بندی کی چند وجوہات ہیں۔ ایس آئی ایف سی جیسے اعلیٰ اختیاراتی ایگزیکٹو باڈی کے ذریعے اِن سبھی چیلنجوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور سرمایہ کاروں کو کاروبار قائم کرنے کےلئے پیچیدہ عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایس آئی ایف سی کی کمیٹیاں اہداف کے ہموار نفاذ کے مقصد سے احتیاط سے تشکیل دی گئی ہیں بدقسمتی سے سال دوہزاردس میں نافذ کی گئی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ٹیکس وصولیوں کا ساٹھ فیصد صوبوں کو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کو اپنے بجٹ اہداف پورا کرنے کیلئے بھاری قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایس آئی ایف سی کا مقصد ’براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)‘ کو فروغ دینا ہے‘ جسے پاکستان نامی ادارے پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کئے بغیر حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سخت اقدامات مثلاً غیر ملکی کرنسی ذخیرہ اور اجناس کی ذخیرہ اندوزی کرنےوالوں کےخلاف کریک ڈاو¿ن‘ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ‘ پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کےخلاف کریک ڈاو¿ن‘ اجناس کی اسمگلنگ کےخلاف کریک ڈاو¿ن اور ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد سرمایہ کاروں کے اعتماد کی عکاسی پاکستان سٹاک ایکس چینج کی کارکردگی سے ظاہر ہوتی ہے زراعت ایس آئی ایف سی کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ مجھے سال دوہزاراٹھارہ میں پاکستان میں ازبک سفیر سے ملاقات کا موقع ملا‘ جنہوں نے بتایا کہ ازبکستان کی فی ہیکٹر زرعی پیداوار پاکستان سے دگنی ہے متعدد وجوہات کی بنا پر یہاں جدید زرعی طریقوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت زرعی صنعت کے مقابلے میں کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ خام مال فراہم کرنےوالوں‘ ملازمین کی ایک بڑی تعداد اور مصنوعات کے خریداروں کے علاو¿ہ‘ صنعتوں کو ایک درجن مختلف سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے تاہم ایک کسان بنیادی طور پر صرف صوبائی محکمہ ریونیو کےساتھ منسلک ہوتا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمین کے ساتھ کارپوریٹ فارمنگ نہ صرف پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنائے گی بلکہ جی سی سی اور دیگر ممالک کو اضافی پیداوار برآمد بھی کرےگی چاول کے سب سے بڑے برآمد کنندہ بھارت نے جولائی میں غیر باسمتی سفید چاول کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی جس کی وجہ سے چاول کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے کیونکہ اس سال اچھی پیداوار متوقع ہے امریکی محکمہ زراعت (یو ایس ڈی اے) نے پیشگوئی کی ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی چاول کی برآمدات چالیس فیصد اضافے کے ساتھ قریب پانچ ملین ٹن تک پہنچ جائیں گی جس سے برآمدات میں مزید ایک ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ مالی سال دوہزارچوبیس میں پاکستان میں چاول کی پیداوار نو ملین ٹن رہنے کی توقع ہے جو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے گزشتہ سال کی ساڑھے پانچ ملین کی پیداوار کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ میکسیکو اور روس کے ساتھ تجارت کی وجہ سے رواں سال پاکستان کی جی ڈی پی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوںنگے۔ سال دوہزارچوبیس میں ساڑھے تین فیصد کے ہدف کو حاصل کرنے میں زراعت کا شعبہ اہم کردار ادا کرےگا۔ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پاکستان کے قابل کاشت رقبے کی توسیع کےساتھ تیل دار اجناس کی پیداوار میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے زرمبادلہ کی بچت کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہونگے پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافے سے تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور دیگر سماجی شعبوں میں اخراجات کےلئے گنجائش پیدا ہو گی جس سے عوام فیصلہ سازی کے عمل میں شراکت کے ذریعے بااختیار بنائے جا سکیں گے ایس آئی ایف سی کی معاشی فیصلہ سازی میں فعال شرکت اور اسکے بعد اجتماعی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ مو¿ثر نفاذ کا طریقہ کار بالآخر پاکستان کے سیاسی اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرےگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اویس انور خواجہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)