تدریسی وسائل اور مسائل


درس و تدریس کے طور طریقے بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں‘ وقت کے ساتھ تعلیم کے بارے میں روایتی سوچ اور طرزعمل بھی بدل گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب طلبہ تعلیمی اداروں کے علاو¿ہ درس (ٹیوشن) لینے کو عیب سمجھتے تھے اور جنہیں کسی وجہ سے ٹیوشن لینے کی ضرورت پڑتی تھی وہ یہ بات ظاہر نہیں کرتے تھے کیونکہ اضافی تدریسی سہولت سے وہی فائدہ اُٹھاتے تھے جو کسی وجہ سے مضامین سمجھنے سے قاصر ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں رہا سال دوہزاراٹھارہ کی اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (اے ایس ای آر) کے مطابق سرکاری سکولز کے آٹھ فیصد جبکہ نجی سکولز کے اٹھائیس فیصد بچے سکولوں کے اوقات کے بعد ’پرائیویٹ ٹیوشنز‘ لے رہے ہیں‘دوہزاراُنیس میں یہی تناسب سات فیصد اور بائیس فیصد تھا جبکہ کورونا کے بعد سرکاری سکولز کے بچوں کو بھی ٹیوشن لینا پڑی اور اُن کے ٹیوشن لینے کی شرح بیس فیصد جبکہ کورونا وبا کے دوران نجی تعلیمی اداروں کے بچوں میں یہ شرح بائیس فیصد تک جا پہنچی باالفاظ دیگر ہر چار میں سے ایک طالب عمل اضافی فیس دے کر سکول کے بعد ٹیوشن لے رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں زیادہ تر دیہی علاقوں کی نمائندگی کی گئی اور ان بچوں کی نمائندگی کم تھی جو بھاری فیس لینے والے شہری سکولز میں زیرتعلیم ہیں‘ کورونا کے دوران چونکہ سکولز بند تھے اس لئے ٹیوشنز لینے کا رجحان زیادہ رہا لیکن یہ سلسلہ کورونا کے بعد جاری ہے اور ٹیوشنز کی اہمیت میںکمی نہیں ہوئی۔ اے ایس ای آر کے اعدادوشمار کے مطابق ستائیس فیصد طلبہ کورونا کے دوران ٹیوشنز لے رہے تھے۔ ملک میں تعلیمی کوچنگ کے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو مختلف طرح کے تعلیمی نصاب کےلئے مخصوص ہیں۔ جیسا کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے ایسے ادارے موجود ہیں جو تین سے چار ماہ میں طالب علم کو امتحانات کی تیاری کروا دیتے ہیں۔ یہ ادارے زور دیتے ہیں کہ بچہ پریکٹس کو اپنا معمول بنائے جس سے اس کی یاد کرنے کی صلاحیت بہتر ہوگی اور ساتھ ہی ان سے ماضی کے پرچے بھی حل کروائے جاتے ہیں ٹیوشن کے لحاظ سے ”اے لیولز“ کی مارکیٹ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اس میں کچھ ایسے مخصوص اساتذہ ہوتے ہیں جو طلبہ کو متعلقہ مضامین کی تیاری کروانے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں ‘ ایسے ماہر اساتذہ کا مارکیٹ شیئر بھی نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔نجی سکولز کی مارکیٹ کی طرح ٹیوشنز میں بھی اِس بات پر انحصار کیا جاتا ہے کہ کوئی طالب علم کتنی مہنگی اور کس حد تک معیاری ٹیوشنز لیتا ہے۔ اے ایس ای آر رپورٹ کے مطابق نجی سکولز کے مقابلے میں سرکاری سکولز کے کم طلبہ ٹیوشنز لیتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت نہیں کہ نجی سکولز کے طلبہ میں بہتر اور معیاری تعلیم کی مانگ زیادہ ہے بلکہ اِس سے اُن بچوں کے والدین کی قوت خرید کی عکاسی ہوتی ہے۔پاکستان میں تعلیمی نظام انتہائی غیرمساوی ہے۔ معیاری تعلیم تک رسائی کا تعلق والدین کی آمدنی سے ہے۔ طلبہ کی جنس‘ کسی طرح کی معذوری‘ مقام اور جغرافیے‘ مذہب‘ ذات اور زبان پر بھی کسی حد تک معیاری تعلیم منحصر ہے لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کا معیارِ تعلیم خراب ہے کم فیسوں والے نجی سکولز نسبتاً بہتر نتائج کی صورت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ زیادہ فیسوں والے سکولز کا تعلیمی معیار نمایاں حد تک بہتر ہے لیکن مہنگے ہونے کے سبب ہر شخص کی قوت خرید سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لاہور میں ایک جانب جہاں سرکاری سکولز مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب ایسے سکولز بھی ہیں جن کی ماہانہ فیس نوے ہزار روپے تک ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم کو برابری‘ سماجی اور معاشی تحرک اور اہلیت کے فروغ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اِس کے برعکس صورتحال دکھائی دیتی ہے اور ہمارا تعلیمی نظام عدم مساوات کا مجموعہ ہے پرائیویٹ ٹیوشنز سے غیرمساوی صورتحال مزید سنگین دکھائی دیتی ہے۔ وہ لوگ جن کے معاشی حالات اچھے ہیں وہ تو اپنے بچوں کو اچھی کوچنگ مہیا کرسکتے ہیں لیکن کم غریب والدین یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور یہ مسئلہ صرف پاکستان ہی کا نہیں ہے بلکہ بہت سے دیگر ترقی پذیر ممالک کا ہے کہ وہاں سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے صرف خراب ہی نہیں بلکہ معیاری تعلیم عام آدمی کی قوت خرید سے ہر دن مہنگی ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ دیگر ممالک نے اِس مسئلے کے حل کےلئے کون کون سے اقدامات کئے ہیں۔ معیاری اور مالی طور پر قابل برداشت تعلیم سے متعلق مسئلے کے دو حل ہیں۔ پہلا حل قانون سازی ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری قوانین اور انکی روشنی میں بننے والے قواعد پر عمل درآمد ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ریاست ایسے طلبہ کو ٹیوشنز فراہم کرے جو اِسکے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔ غریب طبقے کے بچوں کو وظیفہ دیا جائے لیکن یہ درست حل نہیں ہوگا۔ ریاست کے مطابق اسکے پاس سکولز اور شعبہ¿ تعلیم پر خرچ کرنے کےلئے اضافی بجٹ نہیں جبکہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے دو کروڑ تیس لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے تو ایسی صورت میں ریاست ٹیوشن فیسیں کس طرح ادا کرسکتی ہے۔ اس عدم مساوات کا واحد حل یہی ہے کہ سرکاری سکولز میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر فیصل باری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)