زبان : زندگی اور موت


کوئی بھی زبان اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب اُسے کوئی نہیں بولتا۔ ایک زبان کیوں مرتی ہے یہ ایک مناسب سوال ہے جو ماہرین لسانیات کی طرف سے پوچھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین لسانیات نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ’زبان کی موت‘ اور ’زبان کی زندگی‘ کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے گرانقدر تحقیق کی ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ اِس وقت کوئی زبان کتنی خطرے میں ہے یا کوئی زبان کیوں مر جاتی ہے؟ ماہرین سب سے پہلے اُس زبان کی زندگی (عرصے) کا اندازہ کرتے ہیں اور اُن تمام عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی زبان کی زندگی اور اس کےلئے خطرہ ہوتے ہیں یا خطرہ بن سکتے ہیں‘ سال دوہزارتیئس میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے ایڈہاک ایکسپرٹ گروپ برائے خطرے سے دوچار زبانوں نے ’زبان کی زندگی اور خطرات‘ کے عنوان سے ایک دستاویز میں 9 ٹھوس عوامل پیش کئے۔ ان میں بین النسل زبان کی منتقلی‘ بولنے والوں کی تعداد‘ کل آبادی کے اندر بولنے والوں کی آبادی کا تناسب‘ موجودہ زبان کے ڈومینز کے استعمال میں رجحانات‘ ذرائع ابلاغ کے نت نئے اثرات‘ ڈومینز کا ردعمل‘ تعلیم و خواندگی کےلئے زبان میں دستیاب مواد‘ سرکاری حیثیت اور سرکاری زبان کی پالیسیاں‘ زبان کے بارے میں مقامی افراد کا رویہ اور زبان سے متعلق موجود دستاویزات کی تعداد و معیار شامل ہیں‘سماجی و ثقافتی اور سیاسی سیاق و سباق کے پیش نظر ان سبھی عوامل کی اہمیت مقامی اور عارضی طور پر مختلف ہوتی ہے ‘ اِن عوامل کا بھی ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے‘ ایک عنصر دوسرے کا سبب یا اس کا اثر ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ کمیونٹی کے ممبروں کا اپنی زبان کے بارے میں رویہ بین النسل ابلاغ میں خلل کا سبب بن سکتا ہے‘ یہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ کسی زبان میں خواندگی اور تعلیم فراہم نہیں کر رہی ہوتی اور اِس کے نتیجے میں‘ زبان ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل نہیں ہو پاتی‘ یونیسکو کے مذکورہ ایڈہاک گروپ کی جانب سے پیش کردہ عوامل ان بہت سے عوامل میں شامل ہیں جو ماہرین لسانیات نے کسی زبان کی زندگی کا اندازہ لگاتے ہوئے پہلے ہی سے پیش کر رکھے ہیں‘ بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی زبان اُس وقت مر جائےگی جب اس کے تمام بولنے والے مر جائیں اگرچہ اب ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے لیکن ماضی میں چھوٹی برادریوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے بالخصوص ایسی چھوٹی برادریاں جنہوں نے قحط‘ زلزلہ‘ سیلاب کا سامنا کیا یا پھر وہ نوآبادیاتیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ بہت سے معاملات میں‘ وہ سبھی لوگ اب بھی زندہ ہوسکتے ہیں لیکن ان کی مادری زبان زندہ نہیں۔ یہ دنیا بھر میں عام ہے اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کی ثقافت مر جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری قوم کی ثقافت لے لیتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ہر زبان کی اپنی منفرد ثقافت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ثقافت مر جاتی ہے یا تبدیل ہو جاتی ہے تو اُس کے ساتھ زبان بھی تبدیل ہو جاتی ہے اور یہ عمل سست و نرم ہے اور ثقافتی انضمام کے طور پر جانا جاتا ہے۔برطانوی ماہر لسانیات ڈیوڈ کرسٹل نے زبان کی زندگی اور زبانوں کا لاحق خطرات جیسے تمام عوامل کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ وسیع عوامل بیان کرتے ہیں کہ کسی زبان کے بولنے والوں کی جسمانی صحت بھی زبان کے ساتھ متاثر ہوتی ہے اور وہ عوامل جو لوگوں کی ثقافت کو تبدیل کرتے ہیں تو اِس سے بھی زبان بولنے والوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زبیرتورولی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)