بچے صرف ہمارا مستقبل ہی نہیں بلکہ ہمارا حال بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی ترویج اور وکالت کےلئے ہر سال ’عالمی دن‘ بھی منایا جاتا ہے‘ اِس سلسلے میں بیس نومبر 1956ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور کیا تھا اور اِسی دن 1989ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (یو این سی آر سی) کو اپنایا‘ رواں برس بچوں کے عالمی دن کا موضوع ”ہر بچے کےلئے‘ ہر حق کےلئے“ رکھا گیا ہے پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 33 سال قبل 12 نومبر 1990ءکو یو این سی آر سی کو منظور کرنے کے ایک سال کے اندر اس کی توثیق کر دی تھی‘پاکستان نے اپنی پہلی اور ابتدائی رپورٹ جنوری 1993ءمیں شائع کی جو بچوں کے حقوق سے متعلق کمیٹی کو پیش کی گئی جبکہ تازہ ترین چھٹی اور ساتویں مشترکہ رپورٹ اگست 2023ءمیں پیش کی گئی ہے یو این سی آر سی کمیٹی نے تین جون دوہزارسولہ کو ہونےوالے اپنے اجلاس میں پاکستان کی پانچویں پیریڈک رپورٹ سے متعلق حتمی مشاہدات منظور کئے پاکستان کی پانچویں پیریڈک رپورٹ کے اختتامی مشاہدات میں ’یو این سی آر سی‘ کمیٹی نے پاکستان کو اپنی سابقہ سفارشات کا اعادہ کیا کہ وہ ”بچے کی تعریف کے حوالے سے قانون سازی میں مکمل ہم آہنگی کو یقینی بنائے تاکہ بچے کو اٹھارہ سال سے کم عمر کے کسی بھی انسان کے طور پر بیان کیا جاسکے“پاکستان میں بچوں کی بڑی آبادی ہے ڈیموگرافک سروے 2020ءکے مطابق پاکستان میں پانچ سے نو سال کی عمر کے دو کروڑ اٹھانوے لاکھ پچپن ہزار دوسو اُنتالیس بچے ہیں جبکہ دس سے چودہ سال کی عمر کے دو کروڑ انہتر لاکھ اُنتیس ہزار نوسوباون اور پندرہ سے اُنیس سال کی عمر کے دو کروڑ چونتیس لاکھ بیس ہزار آٹھ سو چار افراد شامل ہیں‘ پاکستان کی آبادی کا تقریباً پنتالیس فیصد بچے (جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم) ہیں اور بائیس اعشاریہ سات فیصد نوجوان ہیں جن کی عمریں دس سے اُنیس سال کے درمیان ہیں۔ یونیسیف کے مطابق ایک سال سے کم عمر کے بچوں میں پیدائش کے اندراج کی شرح تیس فیصد اور ایک سے چار سال کے بچوں کا چودہ فیصد اندراج ہوتا ہے اگرچہ پاکستان کی تقریبا ًنصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے (یو این سی آر سی کے آرٹیکل ون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم کسی بھی شخص کو بچہ کہا جاتا ہے) اور اس حقیقت کے باوجود کہ ملک نے تینتیس سال پہلے یو این سی آر سی کی توثیق کر دی تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے صوبائی اور قومی قوانین ’بچے‘ کی تعریف کے لحاظ سے متضاد ہیں اور یہ اسٹیک ہولڈرز کو الجھن میں ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں ہو رہی ہیں۔ اِن خلاف ورزیوں میں اُن کی کم عمری کی شادیاں‘ چائلڈ لیبر‘ تنازعات میں بچے اور قانون سے رابطہ اور مسلح تنازعات میں بچوں کی شمولیت جیسے امور شامل ہیں۔ جن بچوں کو سماجی مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے‘ جیسا کہ لڑکیاں‘ پناہ گزین اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے بچے‘ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے بچے‘ والدین کی دیکھ بھال کے بغیر بچے‘ معذور بچے اور گلیوں میں رہنے والے بچے یہ سب غیرمتناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے دو کروڑ اٹھارئیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی جانب سے سال دوہزاربائیس میں کی جانےوالی تحقیق میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک گھرانے میں گھریلو مزدوری میں ایک بچہ کام کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 11 (تین) چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ”کسی بھی فیکٹری یا کان یا کسی دوسرے خطرناک ملازمت والے مقام“ پر کام کاج کرنے سے روکتا ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق سولہ سال کی عمر تک کی تعلیم کے حق کی خلاف ورزی بھی ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو چائلڈ لیبر کے حوالے سے صوبائی قانون سازی کا اختیار حاصل ہے لیکن ایک ہی صوبے میں بچے کی عمر کے حوالے سے مختلف قانون سازی میں تضادات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ کے ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2018ءنامی قانون میں بچے کی تعریف چودہ سال یا اس سے کم عمر کے شخص کے طور پر کی گئی ہے جبکہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ دوہزارگیارہ اور دوہزاربائیس کی ترمیم میں بچے کی تعریف ایسے شخص کے طور پر کی گئی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر تک نہ پہنچا ہو۔ مزید برآں‘ ہر صوبے میں ایک ہی موضوع کو چلانے والی قانون سازی میں بچے کی عمر کے بارے میں تضادات بھی موجود ہیں۔ پنجاب اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ءاور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2022ءکی دفعہ تین کے تحت پندرہ اور سولہ سال کم عمر بچوں کو کسی بھی حیثیت میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے سے روک دیا گیا ہے الغرض چائلڈ لیبر ملک میں بچوں کو درپیش متعدد چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں اور خلاف ورزیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر چائلڈ لیبر کی بلند شرح اور تعلیم تک رسائی حاصل کرنے والے بچوں کی کم شرح کا تعلق پاکستان میں کم عمری اور جبری شادیوں کی بڑی تعداد سے بھی ہے۔پاکستان میں بچوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جو ان کے حقوق تک اِن کی رسائی کو محدود کر رہے ہیں‘ جن میں آب و ہوا کا بحران، نسل پرستی اور امتیازی سلوک شامل ہیں۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق سال دوہزاراکیس بائیس کی مدت میں پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) میں سات درجے تنزلی ہوئی ہے اور 192 ممالک میں پاکستان کا نمبر 161واں ہے۔ یہ جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات (این ایم آر) میں سب سے زیادہ ہے۔ بچوں کا عالمی دن ہم میں سے ہر ایک کو بچوں کے حقوق کی وکالت کی ترغیب دے رہا ہے۔ یہ ایک موقع ہے کہ اِس کے ذریعے آپسی بات چیت‘ مکالمے اور اقدامات کو فروغ دیا جائے اور ایک ایسی دنیا بنائی جائے جو بچوں کےلئے بھی یکساں موافق (بہتر) ہو۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ردا طاہر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)