غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق ہم اپنے بچوں سے کیسے بات کریں؟ حماس؛اسرائیل جنگ کو ایک ماہ سے زائد گزر جانے اور تقریباً11ہزار فلسطینیوں کے قتلِ عام کے بعد، پاکستان کے بہت سے والدین اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں‘سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے، دن رات غزہ پر ہونے والی بمباری کے دل دہلا دینے والے مناظر ہم تک پہنچ رہے ہیں‘ اس سب سے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں کیونکہ وہ فلسطین تنازع کے حوالے سے اپنے والدین کی باتیں سن رہے ہیں اور اس معاملے کو سمجھنے کے لئے وہ سکول میں اپنے اساتذہ کے ساتھ بھی گفتگو کررہے ہیں‘غزہ کی نصف آبادی 18 سال سے کم عمر ہے۔ یہ صورتحال ہمارے بچوں کو نہ صرف فلسطینی بچوں کےلئے بلکہ اپنے لئے بھی تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بچوں سے بات کرنے کا ہمارا طریقہ ان کے خوف کو دور کرنے کےلئے اہم ثابت ہوسکتا ہے‘غزہ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرنے کےلئے والدین کو اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے‘ اپنے سیاسی نظریات بیان کرنے کے بجائے بچوں کو سوال کرنے کا حوصلہ دیں جوکہ زیادہ مددگار ثابت ہوگا‘بچوں کو ہر اس چیز کے حوالے سے محتاط رہنے کی تعلیم دی جانی چاہیے جو وہ انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ غلط معلومات پھیلانے سے گریز کریں۔انہیں ٹیلی ویژن یا سوشل میڈیا پر پرتشدد مناظر دیکھنے سے بچانا ہوگا، موجودہ صورتحال آپ اور آپ کے بچوں کےلئے ایک ساتھ اس خطے کی تاریخ جاننے کا اچھا موقع ہے‘ سب سے اہم یہ ہے کہ بچوں کو یہ امید دی جائے کہ بدترین حالات میں بھی امن اور مفاہمت ممکن ہے‘رواں ماہ آرٹس کونسل کراچی میں پاکستان لرننگ فیسٹیول (پی ایل ایف) کا انعقاد ہوا‘ پی ایل ایف جوکہ پہلے چلڈرن لیٹریچر فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا تھا، ملک کے کامیاب ترین لرننگ فیسٹیولز میں شمار کیا جاتا ہے۔12 برس سے ملک بھر میں اس کا انعقاد ہورہا ہے جس میں بچوں کو قصہ گوئی، مباحثوں کے سیشنز، تعلیمی سرگرمیوں میں براہِ راست شرکت اور تفریح کے ذریعے کچھ سکھایا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ معروف فنکار اور اس فیسٹیول کی شریک بانی رومانہ حسین نے سوچا کہ یہ فیسٹیول بچوں سے غزہ کے تنازع کے بارے میں بات کرنے کا اچھا موقع ہے‘انہوں نے فیس بک پر پوچھا کہ کیا کسی کو فلسطین سے متعلق بچوں کی کسی کتاب تک رسائی حاصل ہے اور ساتھ ہی ان کتابوں کے نام بھی شیئر کیے جن کے حوالے سے انہوں نے تحقیق کی اور انہیں بچوں کےلئے موزوں سمجھا‘ یہ کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں تھیں تو میں نے اشاعتی اداروں سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا اور ان سے کہا کہ کیا وہ ان کتابوں کی کاپی پی ایل ایف کےلئے بھجواسکتے ہیں‘میں نے رومانہ سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو میں اس سیشن میں ان کی مدد بھی کرسکتی ہوں اور یوں ہم نے اردو اور انگریزی میں کہانیوں کا مشترکہ سیشن منعقد کرنے پر اتفاق کیا‘ایک ناشر نے میری درخواست کا جواب دیا اور وہ امریکی ریاست میساچوسٹس میں انٹرلنک بکس کے مشیل ماشابیک تھے‘کتاب کا نام سِتیز برڈ: اے غزہ اسٹوری ہے جسے بچوں کےلئے مصور شائع کیا گیا ہے‘ اس کتاب کی السٹریٹر فلسطینی فنکارہ ملاک مطر ہیں۔ سِتیز برڈ غزہ میں پرورش پانے اور فنکار بننے کا خواب دیکھنے والی ملاک مطر کی اپنی کہانی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جب دوسری انتفاضہ میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی تو وہ اور ان کا خاندان پچاس دنوں تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ مشیل نے ہمیں اس کتاب کی پی ڈی ایف بھیجی اور ساتھ ہی ہمیں اسے اپنے سیشن میں استعمال کرنے کی اجازت بھی دی۔رومانہ حسین نے اس پی ڈی ایف سے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنائی اور ساتھ ہی اس میں انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے نقشے کو بھی شامل کیا تاکہ دونوں ممالک کے جغرافیے پر بھی بچوں سے بات کی جاسکے‘سیشن کے پہلے روز رومانہ نے اعلان کیا، ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا‘میں ایک ایک صفحہ انگریزی میں پڑھتی گئی اور رومانہ اسے اردو میں بیان کرتی رہیں۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ کہانی کو ڈرامائی انداز میں پڑھوں‘اگلے روز ہم نے الگ اور کم حاضرین کے سامنے یہی کہانی پیش کی۔ جب میں نے نشستوں پر بیٹھے بچوں کو دیکھا تو ثانوی سکول کی لڑکیوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھا جن میں سیو فلسطین اور فری فلسطین لکھا ہوا تھا جبکہ ان پلے کارڈز پر غزہ میں تباہی کے مناظر بھی موجود تھے‘وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور احتجاجاً دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔(بشکریہ ڈان :تحریر:بینا شاہ ترجمہ ابو الحسن امام)