کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کو قومی ریاست کے طور پر قبول نہ کرنے میں ہچکچاہٹ درحقیقت ڈیورنڈ لائن کی تشکیل کے بارے میں افغان مؤقف کی وجہ سے ہے۔ افغانوں کا کہنا ہے کہ یہ افغان ریاست کی رضامندی کا اقدام تھا۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی آبادی کے اعداد و شمار اور جغرافیہ ملتے جلتے ہیں اور دونوں قومی ریاستوں کی کسی حد تک کنفیڈریشن کا امکان بھی موجود ہے‘ 1947ء کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات اور تاریخ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ گزین قرار دینا پاکستان کے تصور سے اکتاہٹ کے مترادف ہے اور یہ ایک متنازعہ حکمت عملی ہے۔ سفارتی مشکلات اپنی جگہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ خود مختار علاقوں میں کھلی آمدورفت کو رسمی طور پر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور افغانستان میں سوویت حملے تک افغانوں اور پاکستانیوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے تجارتی کنونشن سے پہلے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان سازوسامان کی نقل و حمل کی اجازت تھی۔ 1979ء میں افغانستان میں روسی جارحیت کے نتیجے میں افغانوں کی پہلی بار بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے 1990ء کی دہائی کے اوائل میں قریب ستر لاکھ افغانوں کی میزبانی کی جس کے بعد 1999-2000ء تک ان کی واپسی ہوئی۔ نائن الیون کے بعد سے اور اگست دوہزاراکیس میں طالبان کو دوسری مرتبہ حکمرانی
ملی جس کے بعد سے افغانوں کی ہجرت کا نیا دور شروع ہوا۔ دوہزاراکیس میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں داخل ہونے والے افغانوں کی تعداد میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس حالیہ لہر میں‘ افغان انتہا پسند حکومت کے ظلم و ستم اور زندگی کے خطرات جیسے خوف کی وجہ سے بھاگے جس نے انہیں کسی بھی حقوق یا قانون کی حکمرانی کی ضمانت نہیں دی جس طرح وہ دو دہائیوں کے دوران امریکی زیر قیادت اتحادی افواج کے تحت عادی ہو گئے تھے۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے افغانوں کے پاکستان میں داخل ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں تیزی یا کمی آتی رہتی ہے لیکن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے کبھی بھی پاکستان میں افغانوں کے مسئلے کو اس کے حل کیلئے نہیں دیکھا۔ یہ مسئلہ پاکستان کی داخلی قومی سلامتی سے لے کر انسانی ہمدردی تک کئی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ پاکستان میں جن افغانوں کو قانونی طور پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا یا جنہیں ویزے جاری کئے گئے‘ انہیں بغیر کسی قانونی احاطہ کے معاشی اور سماجی طور پر کام کرنے کی اجازت دی گئی بشرطیکہ اس سے ریاست یا مقامی افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچے۔ سرمایہ دار افغانوں نے بھی اس غیر رسمی عمل کا فائدہ اٹھایا اور اپنے میزبانوں کے ساتھ مل کر کاروبار کیا۔ اسکے باوجود پاکستان میں افغانوں کی شناخت‘ نقل و حرکت‘ کام کاج اور سماجی تحفظ کے معاملات جیسے امور غورطلب اور حل طلب ہیں۔ معاشی طور پر پاکستان میں افغانوں نے بڑے پیمانے پر قومی معیشت میں حصہ ڈالا لیکن اگر انہیں مالی شمولیت اور رسمی تجارت اور روابط جیسے حقوق دیئے جاتے تو وہ رسمی معیشت کا بہتر استعمال کرسکتے تھے۔ کرنسی اور اثاثوں اور غیر قانونی اقتصادی بین السرحدی لین دین پر موجودہ مسائل سے بھی نمٹا جا سکتا تھا اور اگر شروع دن سے ہی قانونی طور پر اس بات کی اجازت دی جاتی تو سیکورٹی کے معاملات بہت آسان ہو سکتے تھے تاہم پاکستان کی دور اندیش حکمرانی میں افغان شہریوں کی کشش کا بہت سا سامان موجود ہے۔ اس سب کے باوجود‘ پاکستان میں زیادہ تر روایتی تارکین وطن برادریوں کی طرح افغانوں نے بھی سخت محنت کی اور میزبان ملک کی معیشت کا غیر دستاویزی حصہ رہے۔ مثال کے طور پر جواہرات و زیورات‘ دستکاری‘ خوردہ فروشی‘ کھانا پکانے اور نقل و حمل جیسے شعبوں میں افغانوں کی سرمایہ کاری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ تاہم اس سے پاکستانی مزدور متاثر ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر تارکین وطن مزدوروں کی طرح افغان مزدور ہمیشہ بہتر صلاحیت اور ہنر کی وجہ سے ترجیح رہے ہیں جس سے صرف پاکستان ہی
نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں افغان مہاجرین آباد ہوئے وہاں کے مقامی لوگوں کو ان سے متعلق تشویش رہی‘ پاکستان میں افغان مہاجرین کی وجہ سے خواتین کام کاج کرنے والی مارکیٹ متاثر ہوئی۔ ملک کے مختلف شہروں پر افغان مہاجرین کے مختلف اثرات مرتب ہوئے جیسا کہ کوئٹہ میں تازہ اور خشک میوہ جات‘ ادویات‘ قابل تجدید توانائی‘ ری سائیکلنگ اور الیکٹرانکس کے شعبوں پر افغانوں کا غلبہ رہا۔ پشاور میں قالین سازی‘ جیمولوجی اور نقل و حمل کے شعبوں میں افغانوں کا عمل دخل دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد سے کراچی جیسے دیگر اہم شہروں میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں افغانوں نے سرمایہ کاری کی جبکہ انہوں نے مقامی مارکیٹوں میں ملازمتوں کے نئے رجحانات بھی متعارف کروائے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں افغانوں نے مقامی میزبان برادریوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں اور شراکت داری سے فائدہ اٹھایا تاہم پاکستان کی ریاست افغان افرادی قوت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھا سکی اور وہ معاشی حالات جو افغان افرادی قوت کی وجہ سے پاکستان کے حق میں ہونے چاہئے تھے‘ ان سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ وقت ہے کہ غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے جاری عمل کی تکمیل کے ساتھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین جیسی افرادی قوت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (مضمون نگار ورلڈ بینک کے سابق ملازم ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عامر ظفر درانی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)