ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت


دنیا میں ٹیکنالوجی سماجی و اقتصادی ترقی کا محرک اور ایک قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے‘ اس تبدیلی کے اثرات مختلف شعبوں میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں بالخصوص اِس وجہ سے اقتصادی ترقی‘ تعلیم و صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے علاو¿ہ طرزحکمرانی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں لیکن بہت سی تخریبی ٹیکنالوجیز بھی ہیں اور وہ بھی کرہ ارض پر بسنے والوں کے رہن سہن‘ کام کاج اور نقل و حرکت کے انداز کو تبدیل کر رہی ہیں‘ ایسی ہی ایک انتہائی تخریبی اختراع انٹرنیٹ ہے انٹرنیٹ ایک عالمی پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر چکا ہے جو افراد‘ کاروباری اداروں اور حکومتوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔ ایمیزون اور علی بابا جیسے ای کامرس پلیٹ فارمز نے روایتی ریٹیل کو متاثر کیا ہے جبکہ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے مواصلات‘ اشتہارات اور یہاں تک کہ سیاسی گفتگو کو بھی نئی شکل دی ہے۔ موبائل اختراعات نے فنانس (موبائل بینکنگ)‘ ہیلتھ کیئر (ٹیلی میڈیسن) اور تعلیم (ای لرننگ) جیسی صنعتوں میں انقلاب برپا کر رکھا ہے‘موبائل ٹیکنالوجیز نے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں لوگوں کو بااختیار بنایا ہے‘ معلومات‘ خدمات اور معاشی مواقع تک رسائی فراہم کی ہے جو پہلے رسائی سے باہر تھے ٹیلی کمیونیکیشن میں تخریبی اختراعات‘ خاص طور پر فور جی اور فائیو جی نیٹ ورکس کی توسیع‘ عالمی سطح پر رابطوں کو تبدیل کر رہی ہے یہ ٹیکنالوجیز تیز رفتار انٹرنیٹ کی رفتار کو آسان بنانے سے متعلق ہیں وہ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) سمارٹ شہروں اور متعدد ایپلی کیشنز کو قابل بناتے ہیں جو آپسی رابطوں میں اضافے سے کارکردگی میں اضافہ کریں‘ مثال کے طور پر کینیا میں ایم پیسا موبائل ادائیگی کے نظام نے مالیاتی خدمات میں انقلاب برپا کیا ہے‘ خاص طور پر وہ علاقے جو روایتی بینکاری تک محدود رسائی رکھتے ہیں‘ ایک اور اہم تخریبی اختراع قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز جیسا کہ شمسی اور ہوا کی توانائی ہے جس نے انتہائی خاموشی سے ماحولیاتی استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی دونوں شعبوں پر دور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ اختراعات توانائی کے روایتی ذرائع کو چیلنج کرتی ہیں اور زیادہ پائیدار و ماحول دوست توانائی کے منظرنامے کی وضاحت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرنےوالے ممالک‘ جیسا کہ جرمنی اپنی انرجیوینڈ پالیسی کے ساتھ‘ نہ صرف اپنے ہاں ماحولیاتی منفی اثرات کو کم کر رہا ہے بلکہ نئی صنعتوں کو فروغ بھی دے رہا اور اِس سرمایہ کاری سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ملازمتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں لیکن شاید گزشتہ دو دہائیوں میں ابھرنے والی سب سے اہم تخریبی قوتیں مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ (ایم ایل) ہیں جو تخریبی ایجادات ہیں اور جو کام و پیداواری صلاحیت کے مستقبل کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ مینوفیکچرنگ میں آٹومیشن سے لے کر فنانس میں الگورتھم ٹریڈنگ تک‘ اے آئی اور ایم ایل مختلف شعبوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اگرچہ یہ ٹیکنالوجیز کارکردگی اور فیصلہ سازی میں اضافے کا باعث ہیں لیکن وہ ملازمتوں کی نقل مکانی کے بارے میں بھی خدشات پیدا کرتی ہیں اور جب ہم اِنہیں اسٹرٹیجک طور پر استعمال کرتے ہیں تو اِس سے اے آئی اور ایم ایل میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے‘ خاص طور پر ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت کی ترقی جیسے شعبوں میں بے پناہ توسیع ہوئی ہے۔ اِسی طرح ”بلاک چین ٹیکنالوجی“ جو ابتدائی طور پر بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسیوں کےلئے بنیادی ٹیکنالوجی کے طور پر تیار کی گئی تھی لیکن اب بہت ساری صنعتوں میں خلل پیدا کر رہی ہے اور انہیں تبدیل بھی کررہی ہے تاہم فنانس (سمارٹ کنٹریکٹس) سپلائی چین مینجمنٹ اور ہیلتھ کیئر (محفوظ ہیلتھ ریکارڈز) میں بلاک چین ایپلی کیشنز دھوکہ دہی کم کرنے اور زیادہ مو¿ثر نظام بنانے کےلئے استعمال ہو رہے ہیں جس سے سماجی و اقتصادی ترقی جیسے اہداف حاصل ہو رہے ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی آمد سے نقل و حمل کے شعبے میں بڑی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے ٹیسلا‘ گوگل کی ویمو اور روایتی آٹومیکرز جیسی کمپنیاں خودمختار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں سیلف ڈرائیونگ کاروں کی سہولت کے علاو¿ہ‘ نقل و حمل اور عوامی نقل و حرکت (پبلک ٹرانسپورٹ) و شہری منصوبہ بندی میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے انقلاب برپا ہے۔پاکستان میں پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کےلئے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کی طاقت کو بروئے کار لایا جائے اور اِس مقصد کےلئے حکومت سرمایہ کاری کرے ایسا کرنے کےلئے معیاری تعلیم‘ سائنس اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری ممکن ہو گی ہمیں ایسا ماحولیاتی نظام بھی تخلیق کرنا ہوگا جس میں نجی ادارے پھل پھول سکیں اور پھیل سکیں اور ہائی ٹیک کے شعبوں میں لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا ہو سکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی صوبائی حکومت نے خاموشی سے اس سلسلے میں پیش قدمی کی اور علم پر مبنی معیشت کی ترقی کےلئے خاطر خواہ رقم مختص کرنا شروع کر دی ہے‘سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی بصیرت افروز قیادت اور بلاول بھٹو زرداری کی سرپرستی میں سندھ حکومت نے اپنی جامعات اور تحقیقی مراکز کو مضبوط بنانے کےلئے سالانہ بائیس ارب روپے جیسی خطیر رقم مختص کرنا شروع کر رکھا ہے تاکہ وہ سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں بہتر کردار ادا کرسکیں۔ اِس سلسلے میں ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی صحت کی تعلیم اور تحقیق میں خدمات کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی میں پہلا فرانزک سائنس سینٹر‘ وائرولوجی سینٹر اور بہت سے دیگر شعبہ جات قائم ہوئے ہیں اور یہ سبھی ستائش کے مستحق اقدامات ہیں۔ سندھ کو مبارک ہو اُور دیگر صوبوں کو بھی سندھ ہی کی تقلید میں ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کم سے کم مساوی اور ضرورت کے تحت زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اُور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق سربراہ ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)