چین کے صدر شی جن پنگ اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے درمیان سان فرانسسکو میں ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی‘ اِس سربراہی اجلاس سے دیگر توقعات کے ہمراہ یہ توقع بھی وابستہ ہے کہ اِس کے نتیجے میں چین امریکہ تعلقات میں استحکام دیکھنے میں آئے گا دونوں رہنماؤں نے چین و امریکہ کے تعلقات کو تشکیل دینے والے جامع اور کئی پہلوؤں پر مبنی نقطہ نظر سے جائزہ لیا اور آپسی تبادلہئ خیال میں اِس بات پر بھی غور کیا گیا ان کی بات چیت دوطرفہ خدشات سے بڑھ کر امن اور ترقی سے متعلق اہم عالمی امور پر مشتمل تھی سربراہی اجلاس کی اہم خصوصیت وہ معاہدہ تھا جس میں دونوں فریقوں نے مختلف شعبوں میں بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے اور اِنہیں مثالی بنانے کا عہد کیا معاہدے کے اہم نکات میں مصنوعی ذہانت پر چین اور امریکہ کی حکومت کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز‘ انسداد منشیات تعاون کیلئے وقف ٹاسک فورس کا قیام اور فوج کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط کی بحالی شامل ہیں اس بحالی میں چین امریکہ دفاعی پالیسی کوآرڈی نیشن مذاکرات اور چین امریکہ ملٹری میری ٹائم مشاورتی معاہدے کے اجلاس جیسے اہم فورمز بھی شامل ہیں۔ اس عزم کے نتیجے میں دونوں صدور کے درمیان ٹیلی فون ہاٹ لائن کا قیام عمل میں آیا ہے دونوں رہنماؤں نے آنیوالے سال کے اوائل میں شیڈول مسافر پروازوں میں خاطر خواہ اضافے کی سہولت فراہم کرنیکا بھی وعدہ کیا ہے‘ جس سے لوگوں کے درمیان روابط بڑھانے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے مزید برآں انہوں نے تعلیم و ثقافت‘ کھیلوں اور کاروبار میں تبادلوں کو وسیع کرنے کے عزم کا اظہار کیا‘ جس سے ایکا کثیر الجہتی تعلقات کو فروغ ملے گا جو سیاسی حدود سے بالاتر ہو۔ چین امریکہ سربراہ اجلاس پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں جسکے لئے یہ ملاقات تسلی بخش اور مستحکم پیغام کی حامل رہی یہ اشارہ چین اور امریکہ دونوں کی جانب سے اپنے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے مشترکہ عزم کی نشاندہی کرتا ہے اور باہمی تعاون کے مواقعوں کی تلاش کا اشارہ بھی ہے۔ چین و امریکہ کے ایک دوسرے سے متعلق تحفظات اور مسائل حل کرنے کے علاؤہ‘ مذکورہ اجلاس نے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دیا ہے اور چین و امریکہ کے تعلقات کے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی ہے۔ اس سربراہی اجلاس نے زیادہ تعاون اور تعمیری روابط کی سمت بھی متعین کی ہے‘ جو ان اہم بین الاقوامی تعلقات کے ارتقا ء میں ایک اہم لمحہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم مذکورہ سربراہی اجلاس کے نتائج کا سلسلہ‘ اِس احساس کی نشاندہی کرتا ہے کہ نہ تو بیجنگ اور نہ ہی
واشنگٹن اپنے تعلقات میں فوری پیش رفت یا خاطر خواہ بہتری کیلئے غیر حقیقی توقعات رکھتے ہیں اسکے باوجود‘ تناؤ کو ان کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے اور مزید خرابی روکنے جیسے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں حسب توقع دونوں رہنماؤں کے درمیان چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں تائیوان کا مسئلہ سرفہرست رہا۔ بائیڈن کے ساتھ سربراہی اجلاس کے دوران تائیوان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے شی جن پنگ نے چین امریکہ تعلقات میں تائیوان کی اہمیت اور حساسیت کو اجاگر کیا۔ صدر شی جن پنگ نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی بند کرے اور چین کیساتھ پرامن اتحاد کی کوششوں کی حمایت کرے‘چین کا یہ پیغام ’پرامن اتحاد‘ کیلئے چین کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے امریکہ اور دنیا دونوں کو ’اہم پیغام‘ ملا ہے اِس سے چین کی درخواست کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ امریکہ تائیوان کو مسلح کرنے سے باز رہے جو پُرامن حل اور اتحاد کی راہ کو برقرار رکھنے کے وسیع تر تناظر پر مبنی ہے اِس پوری صورتحال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بائیڈن نے ایک بار پھر ’ون چائنا پالیسی‘ پر امریکہ کے عزم کا اعادہ کیا ہے انہوں نے مختلف سطحوں پر حکومتی اِداروں کے درمیان بات چیت کے حوالے سے خوش آئند موقف کا اظہار کیا اور چین کیساتھ کھلے اور واضح رابطے کو برقرار رکھنے کیلئے آمادگی پر زور دیا۔ صدر بائیڈن نے تائیوان کے معاملے پر امریکی مؤقف کا اعادہ کیا لیکن اس معاملے پر واشنگٹن کی جانب سے ممکنہ طور پر ”ٹوننگ“ کی طرف بھی اشارہ کیا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)