2 نومبر 1917ء کو برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فلسطین میں یہودیوں کی سرزمین کے قیام کے حق میں ہے‘ اعلان بالفور برطانیہ کے قدامت پسند سیاستدان اور مصنف لارڈ آرتھر بالفور کے نام سے منسوب ہے۔ اس اعلان میں خطے میں بسنے والی غیریہودی آبادی کے شہری‘ مذہبی اور سیاسی حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ موجودہ فلسطین اسرائیل تنازع کی تاریخ بیسویں صدی میں اُس وقت شروع ہوئی جب برطانیہ نے اِس خطے میں قدم رکھا تھا۔ اُس وقت فلسطین کی آبادی میں سات لاکھ عرب اور پچاسی ہزار یہودی تھے اور یہودیوں سے بھی کم تعداد میں وہاں عیسائی آباد تھے۔ فلسطین عرب‘ یہودیوں اور عیسائیوں کا آبائی وطن ہے تاہم فلسطینیوں کی آبادی زیادہ ہے۔ ابتدائی طور پر یہودی آبادی یروشلم اور چند دیگر مقامات تک محدود تھی اور ان کی توجہ شہری اقتصادی سرگرمیوں پر مرکوز تھی جبکہ دوسری جانب زرعی شعبہ عربوں کے ہاتھ میں تھا۔ویانا کے یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے سیاسی صہیونیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ماننا تھا کہ یہودی ایک الگ قوم ہیں اور صدیوں سے ان پر جاری ظلم وستم سے بچنے کا واحد حل‘ ان کی اپنی مملکت کا قیام ہے۔ صہیونیت کے بانی رہنماؤں نے یہودیوں کے لئے ریاست کی ممکنہ زمین حاصل کرنے کے لئے یوگنڈا اور یمن کے سوکوترا جزیرے سمیت مختلف ریاستوں کا دورہ کیا تاہم تاریخی اور مذہبی اہمیت کی وجہ سے سبھی ممالک نے فلسطین کو ترجیح دی۔سال 1917ء میں پہلی جنگ ِعظیم کے دوران برطانوی حکومت نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہودیوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں فلسطین میں زمین دیں گے لیکن اس کے بدلے یہودیوں کو جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی عربوں کی عسکری اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی برطانیہ نے ایک عہد کیا کہ وہ اس خطے میں آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے گا‘ جہاں پہلے سلطنت ِعثمانیہ کی حکومت تھی جن میں خاص طور پر فلسطین شامل تھا۔پہلی جنگ ِعظیم کے بعد ورسائے معاہدے میں برطانوی اور فرانسیسی راج نے فلسطین کو آپس میں بانٹ لیا۔ برطانوی افواج نے فلسطین پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور ابتدائی طور پر عثمانی سلطنت سے آزادی دلانے والوں کے طور پر ان افواج کا استقبال کیا گیا۔ گورننس اور انفرااسٹرکچر میں صہیونیوں کی مدد کرکے برطانیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ہربرٹ سیموئل کی تعیناتی کے بعد سرکاری طور پر یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی جانے لگی۔ وہ ایک پکے صہیونی تھے جوکہ فلسطین میں برطانیہ کے پہلے ہائی کمشنر تھے۔ وہ اس علاقے کے انتظامی ذمہ دار تھے۔برطانوی حمایت سے صہیونی ریاست کے قیام کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا اور اسرائیل نے اہم زمینی تبدیلیاں کیں۔ فلسطین میں زمین کے مالکان جوکہ دوسرے خطوں جیسے دمشق اور بیروت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے‘ انہوں نے اپنی زمینیں فروخت کردیں۔ اس فروخت نے بہت سے فلسطینی ورکرز کو اپنے گھروں سے بیدخل کیا اور بہت سے پناہ گزین وجود میں آئے۔ تل ابیب جیسے شہری مراکز نے ترقی کی اور مشرقی یورپی ممالک سے یہودی پناہ گزینوں کو راغب کیا۔ اُنیس سو تیس کی دہائی میں نازی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی فلسطین میں یہودی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ردِعمل کے طور پر عرب آبادی نے بھی اپنی قومی خودمختاری اور آزادی کے لئے مزاحمت شروع کی۔ برطانوی راج نے عربوں کی بغاوت کو کچل دیا اور اِن کاروائیوں میں بڑی تعداد میں فلسطینی ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس خطے میں برطانوی راج دم توڑنے لگا اور اسے مالی مشکلات کا سامان کرنا پڑا۔ فلسطین کی صورتحال بھی کشیدہ رہی جس کے نتیجے میں برطانوی راج کا اختتام ہوا اور مسئلہ فلسطین اقوامِ متحدہ کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔فلسطین اسرائیل تنازع میں کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ برطانوی راج نے عربوں کو فائدہ پہنچایا جبکہ کچھ کے مطابق اس کا جھکاؤ یہودیوں کی جانب تھا۔ درحقیقت برطانوی انتظامیہ کی بنیادی وفاداری براہئ راست اپنے مفادات سے جڑی تھی۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کے حق میں ووٹ دیا جس میں سے ایک ریاست یہودیوں جبکہ ایک عربوں کو ملنی تھی تاہم اس فیصلے سے امن قائم نہیں ہوسکااور اسرائیل و ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ جنگ ہوئی اور اِس کے نتیجے میں کم سے کم ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں اور سرزمین سے بیدخل کر دیا گیا۔ دو نومبر کو ”اعلانِ بالفور“ کو ایک سو چھ سال مکمل ہوئے جوکہ ایک انتہائی متنازع اعلان ہے کیونکہ اس نے خطے کی اکثریتی آبادی کے حقوق کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ اس تنازع کے لئے برطانیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے کیونکہ جب برطانیہ نے 1917ء میں کنٹرول سنبھالا تو آبادی کا نوے فیصد فلسطینیوں پر مشتمل تھا تاہم جب وہ یہاں سے گئے تو فلسطینیوں کی اکثریت نے خود کو بے گھر اور پناہ گزین کیمپوں میں مقیم پایا۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر سمن صدیقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام