صنعتیں: ترقیاتی حکمت عملی

تین سوالات: کیا صنعتکار تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ اِس سلسلے میں اپنا غیر جانبدار اور تعمیری کردار ادا کرنے کے متمنی ہیں؟ یہ سوال اِس لئے اہم ہے کیونکہ جب ہم صنعتوں سے متعلق قواعد و ضوابط پر مبنی حکومتی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو صنعتی پالیسی پر بلاامتیاز عمل درآمد نہیں ہوتا اور دوسرا موجودہ نظام کو تقویت دینے اور اِس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اِس میں موجود سقم سے فائدہ اُٹھانے کو ترجیح دی جاتی ہے‘ کیا صنعتکار‘ جو موجودہ صورت حال کے اندر پھل پھول رہے ہیں وہ بہتر مستقبل کیلئے ضروری اہمیت کی اصلاحات تجویز کریں گے؟ کیا منافع کے مقاصد سے چلنے والی صنعتیں قومی ترقی اور قومی مفاد میں کردار ادا کرنا چاہیں گی اور تبدیلی کی مشعل راہ بن سکتی ہیں؟ یقیناً ہمیں ایسے ہنرمندوں کی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہئے جو پاکستان کے صنعتی شعبے میں گہری وابستگی رکھتے ہیں‘ صنعت کار اپنے تجربے اور بصیرت کا خزانہ رکھتے ہیں‘ کاروبار کی پیچیدگیوں کو نیویگیٹ کرنے اور مارکیٹ کی حرکیات کو سمجھنے میں بھی اِن کی مہارت انتہا درجے کی ہوتی ہے۔ صنعتی پالیسی ڈیزائن کرنے کے لئے صنعتکاروں پر مشتمل جو نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے وہ جانچ پڑتال کی متقاضی ہے۔ سب سے پہلے‘ صنعتی ترقی کی راہ میں فطری تعصب کا خطرہ حائل ہے۔ وہ صنعت کار جو سبسڈی اور گرانٹس سے لدے موجودہ صنعتی منظر نامے میں پھل پھول رہے ہیں وہ یقینی طور پر انقلابی اصلاحات کی وکالت کرنے سے ہچکچارہے ہوں گے جو ان کے قائم کردہ عہدوں میں خلل ڈالیں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کا خوف یقینی طور پر کمیٹی کو ایسے اقدامات تجویز کرنے سے روکے گا جو پاکستان کی معیشت کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ دوسرا صنعت کاروں کا نقطہئ نظر ان کے کاروباری اداروں کے فوری فوائد تک محدود رہے گا ممکنہ طور پر ملک کو درپیش وسیع تر سماجی و اقتصادی چیلنجوں کو نظر انداز کیا جائے گا۔ حقیقی صنعتی اصلاحات کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوگی: وسائل کی منصفانہ تقسیم‘ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ماحولیاتی استحکام۔ اِن تینوں عوامل پر غور کرنا چاہئے۔ کیا منافع کمانے کی غرض سے قائم صنعتیں قومی ترقی کے لئے اپنے اہداف میں تبدیلی لانے کو پسند کریں گی؟پاکستان کی صنعتی ترقی کی تاریخ گواہ ہے کہ جوں کی توں صورتحال نے چند منتخب اداروں اور افراد کو ہمیشہ فائدہ پہنچایا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے کاروباری ادارے انتہائی پسماندہ نظر آتے ہیں اگرچہ بڑے صنعت کاروں نے وقت کے ساتھ ترقی کی ہے لیکن بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں‘کیا اس عدم توازن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تیار کردہ پالیسی ملک کو صنعتی ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے؟ پاکستان کا صنعتی منظر نامہ‘ موجودہ وقت میں ایک چوراہے پر کھڑا ہے‘ جس کی وجہ زیادہ ان پٹ لاگت‘ تکنیکی رکاوٹیں‘ ماحولیاتی بحران اور عالمی معاشی تبدیلیاں جیسے انواع و اقسام کے چیلنجز ہیں  اِن پیچیدگیوں کو کامیابی سے حل کرنے کے لئے ایسے بصیرت مندوں کی ایک کمیٹی کی طرف سے تیار کردہ پالیسی کی بھی الگ سے ضرورت ہے جو ’اسٹیٹس کو (معاملات کو جوں کا توں جاری رکھنے)‘ کی بجائے اِس کی راہ میں حائل خلل کو دور کریں۔ اِس سلسلے میں چند ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)