حال ہی میں جاری ہونے والے یو این ڈی پی کی جینڈر سوشل نارمز انڈیکس (جی ایس این آئی) رپورٹ میں اِس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر صنفی تعصبات میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ عالمی فہرست (انڈیکس) میں چار جہتوں سے خواتین کے بارے میں لوگوں کے روئیوں کا جائزہ لیا گیا ہے اِن میں سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور خواتین کی جسمانی طور پر سالمیت کے حوالے سے نچلے اور اعلیٰ درجے کے ممالک کی مثالیں جمع (ذکر) کی گئی ہیں۔ دنیا کی پچاسی فیصد آبادی کا احاطہ کرنے والی مذکورہ جامع تحقیق کے مطابق دس میں سے نو مرد خواتین کے خلاف کسی نہ کسی صورت ’صنفی تعصب‘ رکھتے ہیں‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی نوے فیصد آبادی خواتین کے خلاف کم از کم ایک تعصب رکھتی ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ عالمی سطح پر یہ سوچ پچیس فیصد آبادی کی ہے کہ ’مرد کا اپنی بیوی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانا جائز ہے‘ تقریباً نصف جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ مرد سیاسی قیادت کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں اور 43 فیصد عالمی آبادی کا خیال ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد بہتر کاروباری منتظمین (ایگزیکٹو) ہوتے ہیں۔ مزید برآں اٹھائیس فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور تعلیم کی وجہ سے بھی مرد خواتین پر حاوی ہیں۔صنفی مساوات کے لئے عالمی اور قومی سطح پر وعدوں کے باوجود‘ آج کی دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خواتین کو درپیش حالات مثالی ہوں اور ترقی یافتہ ممالک صنفی انصاف پر مبنی معاشرتی ترقی کا دعوی کر سکیں۔ جی ایس این آئی کا دعویٰ ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں گھریلو کام کاج اور بچوں کی نگہداشت میں اوسطاً دوگنا سے زیادہ وقت خرچ کرتی ہیں خواتین کا بغیر معاوضے کے دیکھ بھال کے کام پر گزارا جانے والا وقت آمدنی کے لحاظ سے صنفی فرق میں حالیہ فرق کا سب سے بڑا سبب ہے اٹھائیس خواتین عالمی سطح پر پبلک ایڈمنسٹریشن اور منیجرز ہیں جبکہ اکتیس فیصد سرکردہ رہنماو¿ں میں شامل ہیں خواتین کے پاس پارلیمنٹ کی صرف ایک چوتھائی نشستیں اور بائیس فیصد وزارتی عہدے ہیں۔ اُنیس سو پچانوے کے بعد سے سربراہان مملکت یا حکومت میں خواتین کی تعداد تقریباً دس فیصد رہی ہے۔صنفی تعصبات کی عالمی سطح پر موجودگی تشویشناک ہے کیونکہ اس میں کمی نہیں آ رہی جس کی بنیادی وجوہات کا زیادہ گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صنفی تعصبات کو برقرار رکھنے والے صنفی دقیانوسی تصورات اپنی جگہ موجود تو ہیں لیکن اِن میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو اِس سے خواتین کو بطور افرادی قوت ترقی دینے کے یکساں مواقع اور وسائل تک مساوی رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ خواتین کا سوال سماجی اور معاشی طور پر پیداوار کے وسیع تر عالمی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو تاریخی طور پر طبقاتی‘ صنفی‘ نسلی اور دیگر سماجی تقسیم کی خطوط پر استحصال اور جبر پر مبنی بیانیہ ہے انسانی معاشرے میں غلامی کسی نہ کسی طور پر پائی جاتی ہے۔ جاگیردارانہ‘ سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ ڈھانچوں کی وجہ سے بھی یہ تعصبات برقرار ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اکیسویں صدی کی پدرشاہی نو لبرل سرمایہ دارانہ دنیا میں پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے عالمی کنونشن (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کے تحت صنفی مساوات کے حصول کی جانب پیش رفت مایوس کن حد تک سست ہے چونکہ صنفی عدم مساوات سرمایہ دارانہ پیداوار کے منظم اصولوں میں سے ایک ہے لہٰذا طبقاتی بنیادوں پر معاشروں میں صنفی مساوات کا حصول ناممکن ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں زوال پذیر ہیں عالمی سطح پر آزادی کی گنجائش سکڑ رہی ہے اور پولرائزیشن‘ عسکریت پسندی‘ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت و بے روزگاری کے ساتھ قدامت پسند ردعمل عام طور پر جمہوری طور طریقوں اور خاص طور پر معاشی‘ سیاسی اور شہری مقامات میں خواتین کی مساوی شرکت کے حقوق کو دباو¿ میں ڈال رہا ہے۔صنفی امتیازات کی جڑیں اور سماجی اقدار زوال پذیر ہیں‘ جو معاشرے میں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ کردار تفویض کرتی ہے۔ دنیا بھر میں مردوں سے اِس بات کی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر کمانے والے ہوں گے اور وہ عوامی میدان میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں گے جبکہ خواتین کو گھروں کے نجی معاملات تفویض کئے جاتے ہیں۔ سرکاری اور نجی تقسیم خواتین کے انسانی سرمائے کی تعمیروترقی کے لئے کم وسائل کی سرمایہ کاری کی بنیاد بناتی ہے کیونکہ ان سے معاشی طور پر خود مختار ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ صنفی کردار کا نظریہ نہ صرف عوامی سطح پر خواتین کے کردار کو روپوش کر رہا ہے بلکہ یہ گھریلو دائرے میں خواتین کے کردار اور قدر کو کمزور کئے ہوئے ہے۔ صنفی عدم مساوات ایک عالمی اور منظم مسئلہ ہے‘ جس کے لئے چیلنجنگ اور تبدیلی لانے والے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اِن اقدامات کا مقصد سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام پیداوار اور افزائش نسل اور سماجی سیاق و سباق ختم کرنا ہے۔ جس کے لئے سماجی‘ ثقافتی‘ اقتصادی اور سیاسی فریم ورک کو چیلنج کرنے کے لئے منظم نقطہ نظر کی ضرورت ہے خواتین کے خلاف تعصبات‘ سماجی و معاشرتی رویئے انتظامات اور طور طریقوں سے نمٹنے کا انحصار بڑے پیمانے پر معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جس سے تسلط پسندانہ نظریات‘ اصولوں اور روایتی طور طریقوں کی اصلاح ممکن ہے مردوں اور عورتوں میں صنفی شعور استحصال کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرزانہ باری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)