خواتین دنیا کی کل آبادی کا ’انچاس اعشاریہ سات فیصد‘ ہیں۔ معمولی کمی بیشی کے ساتھ یہ تناسب تاریخ انسانی میں قریب ایک جیسا ہی رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پتھر کے دور سے مصنوعی ذہانت کے دور تک .... خواتین کے سفر میں اسے آدھی آبادی تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس آدھی آبادی کیلئے مناسب علم و ہنر اور وسائل مختص نہیں کئے جاتے جبکہ خواتین کو دی گئی ذمہ داریاں مستقل ہیں اور یہ کہا جائے کہ خواتین دنیا کا محروم طبقہ ہے تو یہ تاثر زیادہ غلط بھی نہیں ہوگا۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا نعرہ اکثر سننے میں آتا ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کئی ایک ادارے بھی بنائے گئے ہیں جو سماجی اصولوں اور قوانین کے ذریعے بااختیار ہیں اور انہیں خواتین کو بھی بااختیار بنانے جیسا فریضہ سرانجام دینا چاہئے۔ پاکستان میں خواتین کو درپیش حالات سے نمٹنے کیلئے قانونی و انتظامی اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن ان کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ پاکستان کی مساوی شہری ہونے کے ناطے خواتین عام انتخابات میں حصہ لینے اور ان کیلئے مخصوص نشستوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے آزاد ہیں۔ پاکستان کی پہلی قانون ساز قومی اسمبلی میں صرف تین خواتین تھیں‘ 1999ءتک چھ سے آٹھ خواتین اور سال دوہزار سے اب تک ستر سے چھہتر ارکان رہی ہیں۔ خواتین کی نمائندگی سینیٹ میں بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں خواتین کے سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کی کوئی حد نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچیں جبکہ کئی دیگر خواتین وزراءاور اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ خواتین کا تعاون قابل ستائش رہا ہے اور اس نے آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ خواتین نے ہمیشہ قومی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے لیکن کبھی بھی ان کی محنت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا۔ دیہی علاقوں میں ملک کی تقریباً ستر فیصد خواتین کھیتی باڑی اور مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں‘ جو معیشت کے دو بڑے ذرائع ہیں اور اس سے زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کو کافی حد تک سہارا بھی ملا ہوا ہے۔ جدید زرعی آلات اور تکنیکوں کے استعمال نے گھر اور گھر سے باہر محنت کش خواتین کو اپنے حقوق سے زیادہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خواتین کی توجہ تعلیم کی طرف بہت ہی کم مبذول ہوئی ہے تاہم خواتین کو تعلیم سے بہرہ مند کرنے کی کوششیں بڑی حد تک کامیاب اور انقلابی ثابت ہوئی ہیں اور اگر گزشتہ دو دہائیوں کی بات کی جائے تو دیہی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی میں بہتری کی صورت میں اہم تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ خواتین شعبہ تعلیم میں مردوں سے زیادہ اچھے نتائج دیتی ہیں اور جب انہیں عملی زندگی میں انتظامی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں تب بھی خواتین بطور بیوروکریسی اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں جس مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بالخصوص قابل ذکر اور قابل فخر ہے۔ خواتین نے کارپوریٹ سیکٹر میں بھی بہت زیادہ کام کیا ہے اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور خود کو معروف و کامیاب کاروباری افراد اور کاروباری شخصیات کے طور پر ثابت کیا ہے۔ نوجوان خواتین مسلح افواج میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں اور یہ وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کیلئے فخر کا باعث ہیں۔پاکستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ریاستی قوانین موجود تو ہیں لیکن اگر ان پر خاطرخواہ عمل درآمد بھی کیا جائے تو صورتحال مثالی ہو سکتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ تعلیمی حصول میں نمایاں صنفی تضاد میں وقت کے ساتھ کمی آئی ہے کیونکہ زیادہ لڑکیاں سکولوں میں داخلہ لے رہی ہیں اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔ یہ خواتین کیلئے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا نکتہ¿ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کو صنف نازک سمجھا جاتا ہے لیکن یہی صنف نازک ہر شعبے میں اپنی محنت و جدوجہد سے ترقی کی راہیں تلاش کر رہی ہیں۔ اگر خواتین کو تعلیم کے ساتھ تربیت و ہنر مندی کے مواقع بھی فراہم کئے جائیں اور انہیں بلاسود آسان شرائط پر چھوٹے قرضہ جات کے ذریعے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے تو اس سے معاشی و سماجی ترقی کا پہیہ زیادہ تیزی سے گھومنے لگے گا اور مہنگائی و بیروزگاری کی شرح میں فوری و نمایاں کمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر فریحہ فرخ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)