تجارتی اصلاحات کیسے کی جائیں؟


 پاکستان کی معیشت اہم موڑ پر کھڑی ہے اُور اِس مرحلے پر اس کے درآمدی ٹیرف ڈھانچے کا ازسرنو جائزہ لینا از حد و اشد ضروری ہو چکا ہے۔ حالیہ تجارتی اعداد و شمار اقتصادی ترقی کے فروغ اور عالمی مارکیٹ میں بلا تعطل ضم ہونے کے لئے اصلاحات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے مطابق پاکستان کا درآمدی ٹیرف ڈھانچہ مختلف شعبوں میں نرخوں کے پیچ ورک کی عکاسی کرتا ہے۔ زراعت کے لئے اوسط مو¿ثر ٹیرف کی شرح ایک اعشاریہ دو فیصد سے لے کر مینوفیکچرنگ کے لئے چالیس فیصد تک ہے جہاں آٹوموبائلز سب سے زیادہ منافع بخش و محفوظ صنعت سمجھی جاتی ہے جس میں مالی و منافع کے تحفظ کی شرح پینتالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے اگرچہ مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے مقصد سے حفاظتی محصولات موجود ہیں لیکن نادانستہ طور پر وہ بین الاقوامی تجارت کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اگر ایک صارفین کے نکتہ¿ نظر سے دیکھا جائے تو یہ زندگی بسر کرنے کی لاگت میں بھی اضافے کا باعث ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک پیچیدہ اسٹریٹجک تبدیلی کا تقاضا کر رہے
 ہیں۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ اور خام مال پر محصولات کو معقول بنانے سے لاگت کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے اور درآمدات پر انحصار کرنے والی صنعتوں کو بھی اِس سے تقویت مل سکتی ہے۔ مزید برآں‘ ٹیرف کی شرح کو تقابلی فوائد کے شعبوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے ترقی کو فروغ مل سکتا ہے‘ جس سے جدت طرازی‘ روزگار اور برآمدی صلاحیت کے لئے سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود صرف ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سے معاشی بحالی کی راہ ہموار نہیں ہو گی جب تک کہ اِس کے ساتھ پالیسی اصلاحات نہ کی جائیں۔ سرمایہ کاری کو راغب کرنے‘ کاروباری ترقی کی حوصلہ افزائی اور مسابقت بڑھانے کے لئے بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ تجارتی سہولت کے طریقہ کار کو بڑھانا اور ادارہ جاتی فریم ورک کی مضبوطی بھی یکساں اہم و ضروری اقدامات میں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کو تجارتی انضمام کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ آزاد تجارتی معاہدوں (ایف ٹی اے) یا ترجیحی تجارتی انتظامات کے ذریعے برآمدات کے لئے نئی راہیں کھل سکتی ہیں اُور اِس سے عالمی مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اعداد و شمار پر مبنی اصلاحات کو جامع نقطہ نظر کے ساتھ پورا کیا جائے اُور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستحکم طویل مدتی منصوبہ مخصوص صنعتوں پر ممکنہ منفی اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ سیاسی اختلافات میں اتفاق رائے پیدا کرنا اور صنعتکاروں‘ ماہرین اقتصادیات اور سول سوسائٹی سمیت جملہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا زیادہ جامع و مو¿ثر پالیسی کی تشکیل اور عمل درآمد کے عمل کو یقینی بناتا ہے۔ ٹیرف اور پالیسی اصلاحات کے ساتھ ٹیکنالوجی کو اپنانا ترقی کا محرک ہوتا ہے۔ کسٹمز کے طریقہ کار‘ لاجسٹکس اور سپلائی چین مینجمنٹ میں ڈیجیٹل حل کے نفاذ سے لین دین کے اخراجات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے اُور نااہلیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ تجارتی حجم کو بڑھایا جاسکتا ہے
‘ جس سے پاکستان کو عالمی میدان میں آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ بہرحال صنعتی اصلاحات کا راستہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے جس سے کئی طبقات کے گہرے مفادات وابستہ ہیں جبکہ بیوروکریٹک جمود و مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے دور اندیش قومی قیادت کی ضرورت ہے۔پاکستان کے لئے یہی مناسب موقع (وقت) ہے کہ ایسی اصلاحات کو اپنایا جائے جن سے برآمدات کو فروغ ملے اُور عالمی سطح پر پائے جانے والے تجارتی مواقعوں سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ کسی بھی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہئے۔ یہی خوشحالی اور جامع معاشی مستقبل کا راستہ ہے جو جرا¿ت مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ پاکستان کا معاشی بحالی کی جانب سفر کا انحصار جامع ٹیرف اصلاحات پر منحصر ہے۔ حالیہ تجارتی صورتحال اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ پاکستان کو پائیدار اقتصادی ترقی اور عالمی مسابقت کی طرف لے جانے کے لئے درآمدی ٹیرف ڈھانچے کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے تبدیلی اور جامع پالیسی اصلاحات کی اشد اُور فوری ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ذیشان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)