امن کا درس


ہر معاشرہ چھوٹی بڑی سطحوں پر تنازعات سے نبرد آزما ہوتا ہے‘ اس طرح کے تنازعات نہ صرف افراد کی زندگیوں کو انفرادی حیثیت میں متاثر کر رہے ہوتے ہیں بلکہ وہ ملک کی ترقی‘ معیشت اور ثقافت کے علاوہ لوگوں کی ذہنی صحت میں بھی خلل کا باعث بنتے ہیں اور صرف وہی معاشرے اِس قسم کے تنازعات سے چھٹکارا پا سکتے ہیں جو اِن سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیاری رکھتے ہوں اور خاطرخواہ ہنر مند بھی ہوں۔ معاشرتی استحکام برقرار رکھنے کےلئے تنازعات کو حل کرنا ضروری ہوتا ہے ‘ اِس سلسلے میں اختیار کی جانےوالی حکمت عملی زیادہ تر تنازعات کے حل میں استعمال کی جاتی ہے جس کے لازمی اجزا¿ میں تعاون‘ سمجھوتہ‘ ہم آہنگی‘ مسابقت اور تنازعات سے بچنے جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔ معاشرے میں دیرپا امن کےلئے ہمیں سب سے پہلے گراس روٹ یعنی عام آدمی کی سطح پر جا کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے کہ امن کی تعلیم عام کرنے کا کام شروع کیا جائے‘ ہمیں ایک ہم آہنگ دنیا کےلئے مناسب و پائیدار منصوبہ بندی‘ مہارت اور پرامن تعلیم کی ضرورت ہے‘ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تین طرح کے تعلیمی نظام ہیں۔ نجی ادارے‘ سرکاری یا نیم سرکاری ادارے اور مدرسے۔ ان تمام نظاموں میں امن کی تعلیم دینے کےلئے مختلف حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے اور اِس سلسلے میں نصاب تعلیم میں امن کے اسباق کا انضمام مو¿ثر حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔’امن کی تعلیم‘ کے موضوع کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا بہت اہم ہے کیونکہ یہ پائیدار حل ہے جس کا مقصد لوگوں کو تنازعات کے غیر متشدد حل کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس سے کسی تنازعہ کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کے ساتھ اس کی روک تھام میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہ رواداری‘ تنوع‘ اظہار رائے اور اختلافات کی قبولیت‘ صنف‘ نسل‘ برادری اور مذہب سے قطع نظر سب کےلئے احترام و ہمدردی کی بنیاد پر بیانیہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں شروع سے ہی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کےلئے سکول کی سطح سے لے کر جامعات تک کے نصاب میں امن کی تعلیم کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ امن کے بارے میں تعلیم نہ صرف کالج یا جامعات کی سطح پر ضروری ہے بلکہ سکول جانےوالے طلبہ کو بھی آگاہی و تربیتی پروگرام اور تفہیم فراہم کرنے کےلئے اِس ذریعہ¿ تعلیم سے استفادہ ضروری ہے طالب علموں کو اصطلاحات‘ مقصد اور اصطلاحات کے مو¿ثر استعمال کے بارے میں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ معاشرے میں تنازعہ کیسے پیدا ہوتا ہے اور مہارت کے ساتھ اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے لیکن یہ مہارت حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اِس کےلئے تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔باقاعدہ تعلیمی درجات شروع ہونے سے قبل تعلیم کو ’مونٹیسوری‘ کہا جاتا ہے اگر اس ابتدائی مرحلے میں طلبہ کو بامقصد اور اچھے الفاظ کے انتخاب سے روشناس کرایا جائے تو اُن کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور باہمی تعاون سے اُن کے مسائل حل ہونے کی راہ بھی نکل سکتی ہے۔ ہر سطح و ہر درجے کے تعلیمی اداروں میں ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی متعارف کرانے کی ضرورت ہے جہاں طلبہ امن کی اہمیت اور اِس کی ضرورت سے آگاہ ہوں‘ وہ امن کے فروغ کےلئے اپنی صلاحیتیں مختص کر سکیں۔ توجہ طلب ہے کہ علم و اہلیت پر مبنی یکساں مواقع کی فراہمی ’امن کی کلید‘ ہے جو مذہب‘ نسل اور تضادات کی بنیاد پر اختلافات سے قطع نظر ہر طالب علم کو فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معاشرے میں ایک ایسا نظام شامل کرنا چاہئے جس میں ہر کسی کو آگے بڑھنے کا موقع ملے اور وہ معاشرے کی مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھ کر سیکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ ہمیں متنوع ثقافتوں‘ تقابلی مذاہب اور اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے‘ ایک ایسا ماحول تشکیل دینے کےلئے اپنی صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لانے کی بھی ضرورت ہے جس سے معاشرے میں اعتماد و شفافیت آئے‘ جس کے ثمرات یہ ہوں کہ لوگ ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اِن سبھی اہداف کے حصول کےلئے اچھا تعلیمی نظام ضروری ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رمشا محبوب خان اور زرمینہ اعجاز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)