درس و تدریس : سرکاری شعبے کا حال


راقم الحروف نے بارہ سالہ لڑکے سلطان (فرضی نام) سے کہا کہ وہ اپنی اردو کی نصابی کتاب سے کوئی بھی ایک جملہ پڑھ کر سنائے لیکن وہ اُردو کا ایک سادہ سا جملہ پڑھنے کےلئے بھی جدوجہد کر رہا تھا اُس نے بمشکل پڑھا کہ ”شیر جنگل کا بادشاہ ہے“ لیکن وہ اِس جملے کا مطلب نہیں جانتا تھا۔ معلم کے مطابق اس کے والدین نے اسے اسلام آباد کے ایک سرکاری (پبلک سکول) سے نکال دیا کیونکہ وہ ٹھیک نہیں تھا اور اسے کام پر لگانے کی کوشش کی، اس نے وعدہ کیا کہ وہ بہتر کرے گا اور اپنے والدین سے درخواست کی کہ وہ اسے کام پر نہ بھیجیں لہٰذا انہوں نے اِسے ایک غیر رسمی بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکول (بی ای سی ایس) میں داخل کرایا‘ جہاں راقم الحروف کی اُس سے ملاقات ہوئی اُس کے معلم نے وضاحت کی کہ سلطان جیسے بہت سے طالب علم‘ جو تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ باقاعدہ سکولوں میں داخلہ نہیں لیتے اور پرائمری (پانچویں) جماعت کا امتحان دینے سے پہلے اِس کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، ساجدہ (فرضی نام) اور ان کی فیملی سیکٹر اسلام آباد کے جی سیون کی کچی آبادی میں رہتی ہے۔ وہ ’ایف ڈی ای‘ کے زیر انتظام قریبی پبلک سکول میں دوسری جماعت کی طالبہ ہے۔ سرکاری سکول بچوں کو مفت درسی کتابیں فراہم کرتے ہیں لیکن اُن کے والد جو کہ ایک صفائی ملازم ہیں کے بقول سکول انتظامیہ نے بچوں کو درسی کتابیں دینے سے انکار کر دیاتھا اورر اُنہیں فیس ادا کرنے کو بھی کہا گیا، ساجدہ اب اپنے پڑوس کے غیر رسمی ’بی ای سی ایس‘ سکول میں پڑھتی ہیں، سلطان اور ساجدہ کے سابق سکول دونوں عوامی فنڈز سے چلنے والے سرکاری ادارے تھے۔ عوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے سکول کےلئے مقامی باشندوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنا آسان نہیں ہونا چاہئے۔فیڈرل پبلک پرائمری سکولوں کا جزوی طور پر گریڈ فائیو (پرائمری) کے اختتام پر مرکزی امتحان میں طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے (مرکزی امتحانات کی پالیسی مختلف علاقوں میں مختلف ہوتی ہے)سرکاری سکول دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے جواب دے سکتے ہیں یا تو وہ اپنے طلبہ کی تعلیم کو بہتر بنانے کےلئے اقدامات کرتے ہیں یا طلبہ کو سکولوں سے نکال دیا جاتا ہے تاکہ بورڈ امتحان میں اُن کی کارکردگی خراب نہ ہو،ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنےوالے طلبہ کو سکولوں سے نکالنے کےلئے کوئی سرکاری پالیسی نہیں لیکن کچھ سکول منتظمین اور اساتذہ کےلئے یہ انکی کارکردگی کو بہتر بنانے اور جانچ پڑتال سے بچنے کا آسان طریقہ ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران کئی اساتذہ سے سنا ہے کہ کچھ ’ایف ڈی ای سکول‘ ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جو والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں‘ جو عام طور پر پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں کو دیگر سکولوں میں داخل کروائیں۔ بہت سے طلبہ سرکاری سکولوں کے نظام کی وجہ سے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے ان کے تعلیمی سفر کا اختتام ہو جاتا ہے۔ کچھ خوش قسمت بچوں کو ’بی ای سی ایس سکول‘ میسر ہیں جو غیر منصوبہ بند‘ غیر رسمی بستیوں اور کچی آبادیوں میں کام کرتے ہیں۔ ایسے سکولوں کی اکثریت دھوکہ (فراڈ) ہوتا ہے اور اُن کی کارکردگی کے اعداد و شمار بھی ہیرا پھیری کا مجموعہ ہوتے ہیں، وقت ہے کہ تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اور یہ سنجیدہ اقدامات اُس وقت تک نہیں ہونگے جب تک سنجیدگی سے کارکردگی کا احتساب اور موجودہ صورتحال کا صداقت سے جائزہ نہیں لیا جاتا، اسلام آباد کے رسمی اور غیر رسمی سکولوں کے تمام پرائمری سکولوں کے بچوں کے ریاضی کے حالیہ ٹیسٹ پر مبنی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں پانچویں جماعت کے صرف دس فیصد بچے ایسے ہیں جنہوں نے قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہی حال دارالحکومت اسلام آباد کی طرح ملک کے دیگر علاقوں کا بھی ہے جہاں سرکاری سکول زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زیادہ تعداد میں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور سکولوں سے استفادہ نہ کرنےوالے بچوں میں 79 فیصد آمدنی کے لحاظ سے غریب طبقات سے تعلق رکھتے ہیں دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے بارے میں فیصلہ سازی وہ لوگ کرتے ہیں جن کے اپنے بچے اِن سکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں موجود سرکاری سکولوں کی حالت اِس سے کہیں زیادہ خراب ہے،پاکستان میں طلبہ کی اکثریت نجی تعلیمی اِداروں سے وابستہ اور سرکاری شعبے سے کٹی ہوئی ہے جبکہ فیصلہ سازوں کی اکثریت زمینی حقائق کا اِنکار کرتی ہے‘ سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان عام ہے جنہیں دور کرنے کےلئے ’ماہرین تعلیم‘ کے مشوروں پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر پاکستان میں نجی تعلیمی ادارے بند کر دیئے جائیں تو طلبہ کی نصف سے زیادہ تعداد کے لئے تعلیم حاصل کرنے کی کوئی بھی سہولت باقی نہیں رہے گی۔ وقت ہے درس و تدریس کے شعبے میں انقلابی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)