عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے تحت 28ویں کانفرنس آف دی پارٹیز (سی او پی 28) میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ سربراہی اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر غور کرتے ہوئے ’نبرد آزما‘ ہیں۔ پاکستان کے لئے‘ جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے آٹھواں سب سے زیادہ خطرہ رکھنے والا ملک ہے‘ خاص طور پر بہت زیادہ خطرات ہیں۔ سال دوہزاربائیس میں مصر میں منعقدہ ”سی او پی 27“ میں پاکستان نے نقصان اور نقصان فنڈ کی وکالت کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ جس کا مقصد موسمیاتی آفات سے غیر متناسب طور پر متاثر ہونے والے ممالک کی مدد کرنا تھا جن میں پاکستان بھی شامل تھا لیکن اس کے باوجود‘ یہ موقع چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جو خطرات لاحق ہیں ان میں بہتری کے لئے عالمی اِمداد یا تعاون کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کو لاتعداد خطرات سے واسطہ ہے اور یہ خطرات مبہم نہیں بلکہ واضح ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021ءکے مطابق پاکستان کو گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی وجہ سے تقریباً تیس ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ (تیس ملین) افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں تاہم ٹھوس ایکشن پلان اور موافقت کی حکمت عملی پیش کئے بغیر صرف اس کمزوری کو اجاگر کرنا پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔ اِس صورتحال میں لچک اور مطابقت پذیر صلاحیت کی تعمیر پر زور دیا جانا چاہئے۔پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ میتھین گیس کے اخراج کا درست تخمینہ لگایا جائے۔ پاکستان میں عالمی گرین ہاو¿س گیسوں کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان سے ہونےو الا میتھین کا اخراج تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ ’کلائمیٹ چینج پرفارمنس اِنڈیکس 2021ئ‘ کے مطابق میتھین کے اخراج کے حوالے سے پاکستان سرفہرست 10ممالک میں شامل ہے جن میں بنیادی طور پر زراعت اور فضلے کے شعبے شامل ہیں۔ اِس کے لئے میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لئے اسٹرٹیجک نقطہ نظر کی ضرورت ہے اور بجائے اِس کے کہ اس کے اثرات کو کم کیا جائے۔ آب و ہوا کی فنانسنگ کا غلط مطلب نہیں لیا جانا چاہئے۔ آب و ہوا کی مالیات کو براہ راست آمدنی کے دھارے کے طور پر دیکھنا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ گرین کلائمیٹ فنڈ‘ آب و ہوا کی فنانسنگ کے لئے اہم میکانزم‘ انتہائی مسابقتی ماحول میں کام کرتا ہے۔ دوہزاراکیس تک‘ فنڈ نے اربوں ڈالر جمع کئے تھے‘ جن میں منصوبوں کو اکثر مضبوط اور جدید تجاویز کی ضرورت ہوتی تھی۔ پاکستان کو اچھی طرح سے تحقیق شدہ‘ پائیدار اور مو¿ثر منصوبوں کی تجاویز کے ساتھ آب و ہوا کی فنانسنگ تک پہنچنا چاہئے۔کاربن مارکیٹوں کی غلط تشریح نہیں ہونی چاہئے۔ پیرس معاہدے کے آرٹیکل چھ کے تحت‘ کاربن مارکیٹوں کو ماحولیاتی لچک کی مالی اعانت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اِن منڈیوں کو صرف آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع کے بجائے آب و ہوا سے مطابقت اور تخفیف کے منصوبوں کی حمایت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ کوئلے پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ دوہزاربائیس میں کوئلے کی کھپت میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جس سے کوئلے پر انحصار کے خلاف عالمی جدوجہد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کو ماحولیاتی وعدوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ موسمیاتی پالیسیوں کو میکرو اکنامک حکمت عملیوں سے الگ کرنا نااہلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی افراط زر میں کمی کا ایکٹ ماحولیاتی عمل کو معاشی پالیسیوں کے ساتھ اِنضمام کو ظاہر کرتا ہے‘ ایک ایسا ماڈل جس کی پاکستان تقلید کرسکتا ہے۔ مو¿ثر آب و ہوا کی پالیسی کے لئے اقتصادی‘ توانائی اور صنعتی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ مقامی طور پر موسمیاتی اِنصاف کی صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر‘ پاکستان کے جنوبی علاقوں‘ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کو شمال کے مقابلے میں زیادہ شدید آب و ہوا کے اثرات کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنانے کے لئے پالیسیوں کو داخلی عدم مساوات کم کم کرنا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خالد وحید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)