اکتوبر 2023ءمیں چین نے بیجنگ میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو فورم کا انعقاد کیا‘ دو درجن سے زائد عالمی رہنماو¿ں کے علاوہ سینکڑوں ایگزیکٹوز‘ مالیاتی ماہرین اور سی ای اوز نے مذکورہ اجلاس میں شرکت کی یہ ایک خاص موقع تھا کیونکہ سال 2013ءمیں ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کو متعارف کرانے کے بعد سے اِس متعلق موضوعات کا مختلف پہلوو¿ں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو چیز پیچھے رہ گئی ہے وہ بڑی طاقتوں کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لئے دلچسپ عالمی دوڑ ہے۔ چین اِس صورتحال میں کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ ایسٹ ایشیا فورم کے ایک حالیہ مضمون میں عالمی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”چین اور باقی دنیا دو مختلف کائناتوں میں رہتے ہیں جبکہ دنیا کا بیشتر حصہ افراط زر کے چیلنج سے نبرد آزما ہے‘ چین افراط زر سے بچنے کے لئے شرح سود میں کمی کر رہا ہے۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو دنیا بھر میں زندگی گزارنے کی لاگت (مہنگائی) بڑھ رہی ہے لیکن چین میں اِس لاگت (مہنگائی) کی شرح کم ہو رہی ہے۔ چین کی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی بھی روایتی تصورات سے مختلف ہے جن سے زیادہ تر لوگ واقف ہیں۔ روایتی طور پر طاقت کے بڑے مقابلے کے نتیجے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور فوجی اتحاد پیدا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وسائل کو ترقی دے کر اِسے جنگ کی تیاریوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تاہم چین اپنے حریفوں کو بنیادی ڈھانچے کی دوڑ میں گھسیٹ رہا ہے۔ستمبر دوہزارتیئس میں نئی دہلی میں منعقدہ جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے موقع پر بھارت‘ امریکہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ یورپی یونین‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی کے آٹھ دستخط کنندگان نے بھارت‘ مشرق وسطی‘ یورپ کوریڈور کی تعمیر کے لئے یادداشت پر دستخط کئے اِس راہداری منصوبے کا تصور بنیادی طور پر امریکہ نے پیش کیا کیونکہ وہ چین کے ’بی آر آئی‘ کا جواب دینا چاہتا ہے۔ ’بی آر آئی‘ دنیا کی نصف آبادی اور عالمی معیشت کے قریب چالیس فیصد کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس سے ریل‘ سڑک اور سمندری رابطے میں اضافے کے ذریعے اقتصادی ترقی میں بہتری آئے گی یہی وجہ ہے معاشی امور کے تجزیہ کار اسے ’گیم چینجر‘ بھی قرار دیتے ہیں‘ گیمر چینجر کی اصطلاح اس سے قبل کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان‘ برطانیہ اور امریکہ نے دوہزاراکیس میں بلڈ بیک اے بیٹر ورلڈ لانچ کرنے کے وقت استعمال کی تھی جون دوہزاربائیس میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں امریکہ کی سربراہی میں رکن ممالک نے گلوبل انفراسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ کے لئے ایک شراکت داری اتحاد کا قیام عمل میں لایا تھا مذکورہ منصوبے کا مقصد دوہزارستائیس تک ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کےلئے چھ سو ارب ڈالر جمع کرنا ہے۔پی جی آئی آئی کے تحت‘ امریکہ اور یورپی یونین نے افریقی ترقیاتی بینک اور افریقہ فنانس کارپوریشن کے تعاون سے‘ لوبیٹو کوریڈور اور زیمبیا لوبیٹو ریلوے کی ترقی کےلئے مفاہمت نامے پر دستخط کئے ہیں‘ جو مل کر افریقہ بھر میں ایک تجارتی راہداری تشکیل دے گا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس منصوبے کو ”نقل و حمل کا سب سے اہم اور بنیادی ڈھانچہ“ قرار دیا ہے جس کے ذریعے امریکہ نے افریقی براعظم میں ایک نسل تیار کرنے میں مدد دی ہے‘ دسمبر دوہزاراکیس میں‘ یورپی یونین نے اپنے 340 ارب ڈالر کے گلوبل گیٹ وے سرمایہ کاری منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اسے ’بی آر آئی‘ کا ”حقیقی متبادل“ اور قابل اعتماد برانڈ قرار دیا میگا پراجیکٹس کے علاو¿ہ کچھ ممالک نے چھوٹے پیمانے پر اقدامات بھی شروع کئے ہیں مثال کے طور پر‘ جاپان نے معیاری بنیادی ڈھانچے کےلئے آزاد اور کھلے بحر ہند‘ بحر الکاہل اور شراکت داری کا آغاز کیا اِس دوران جنوب مشرقی ایشیا میں چین اور جاپان کے درمیان دشمنی خاص طور پر شدید رہی ہے۔ بھارت نے ان منصوبوں میں حصہ لینے کے علاو¿ہ اپنے علاقائی رابطے بڑھانے کےلئے چند اقدامات کئے ہیں اگرچہ مذکورہ راہداری منصوبوں کے جغرافیائی سیاسی پہلوو¿ں کو اکثر میڈیا میں بیان کیا جاتا ہے لیکن میک کنزی اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے ادارے انہیں شراکت دار سمجھتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر غلامی علی اور نیان پنگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)