پاکستان کے قومی خزانے پر سرکاری اداروں کا مالیاتی بوجھ کم کئے بغیر معیشت کی بہتری ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح نجکاری کا عمل اور اِس سے متعلق لائحہ عمل پر غوروخوض جاری رہتا ہے۔ خوش آئند ہے کہ نگران حکومت بھی اِس سلسلے میں کوششیں کر رہی ہے اور نگرانی کے اِس عمل کی نگرانی فواد حسن فواد جیسے قابل بیوروکریٹ کر رہے ہیں ‘ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کی مخالفت کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے جبکہ زمینی حقائق اور اعداد و شمار ایک بالکل الگ قسم کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں پانچ ائرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور کم و بیش ایک جیسی ہی خدمات فراہم کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود چار نجی ائر لائنز منافع کما رہی ہیں لیکن اِن کے مقابلے پی آئی اے نے صرف ایک سال کے دوران 88 ارب روپے کا نقصان کیا جو اِس کی آمدنی کے لحاظ سے اکیاون فیصد نقصان کسی بھی طرح قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتاہے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو پچاس ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل پینتیس ارب روپے کا نقصان قومی خزانے کو منتقل کیا گیا۔ اِس طرح پی آئی اے کا اب تک مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہو چکا ہے جس کی موجودہ مالیت مزید بڑھ کر 900 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہ 900 ارب روپے کتنے ہوتے ہیں اور اِن 900 ارب روپوں سے کیا کچھ بنایا جا سکتا ہے اِس بات کا اندازہ اِس سے لگائیں کہ 900 ارب روپے سے آغا خان یونیورسٹی جیسی بڑی 15علاج گاہیں بنائی جا سکتی ہیں‘ لمس یونیورسٹی جیسے ساٹھ تعلیمی ادارے یا پھر ملک بھر میں 18 ہزار سکول بنائے جا سکتے ہیں لیکن اِس ترقی کی بجائے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کا بوجھ قومی جزانے پر برقرار رکھا گیا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو اپنے 8 ہزار ملازمین کو تنخواہیںپینشن اور دیگر مراعات تو دیتا ہے لیکن سول ایوی ایشن اور پی ایس او کے واجبات ادا نہیں کرتا۔ گزشتہ پندرہ سال میں حکومت نے پی آئی اے کو سہارا دینے کے لئے 109 ارب روپے ادا کئے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت بھی دی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لئے جتنی رقم بھی چاہیں خرچ کر لیں لیکن اِس سے فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ایسے کئی تجربات کے ایک جیسے نتائج بصورت ناکامی برآمد ہوئے ہیں۔پی آئی اے کی طرح پاکستان ریلویز بھی خسارے میں چل رہا ہے۔ ریلویز کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لئے پینتالیس ارب روپے اور مجموعی طور پر ستر ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں جبکہ اس کے علاو ہ ترقیاتی اخراجات کے لئے اضافی پچیس ارب روپے بھی دیئے گئے ہیں۔ ریلویز کو ایک سال پہلے خسارہ 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے خسارہ چھپن ارب روپے تھا۔ صرف گزشتہ پندرہ برس میں پاکستان ریلویز کا خسارہ پورا کرنے پر 783ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں اورریلویز کا موجودہ خسارہ ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلویز کی طرح پاکستان اسٹیل ملز بھی خسارے کا باعث ہے کیونکہ یہ گزشتہ آٹھ سال سے بند ہے لیکن اِس کے ملازمین کو تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد رقم واجب الادا ہے۔ امید ہے کہ نجکاری کے عمل کو تیز کرتے ہوئے معیشت کی اصلاح کی جائے گی کیونکہ معاشی بہتری کے لئے اِس سے زیادہ قابل عمل اور بہتر کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔ نجکاری کا ایجنڈا معاشی نقصانات کو روکنا قومی خزانے پر سرکاری اداروں کا بوجھ کم کرنا اور عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں کو ضائع ہونے بچانا ہے۔ (مضون نگار معیشت داں سابق وفاقی وزیر خرانہ اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما ہیں۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر مفتاح اسماعیل۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)