سمگلنگ پاکستان کو درپیش پیچیدہ چیلنجز میں شامل ہے۔ اسے اکثر پس پردہ معیشت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ ٹیکسوں (محصولات) کی وصولی کم ہونے کی صورت قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے یعنی اس کی وجہ سے ٹیکس چوری کے رجحان کو فروغ ملتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ ”قومی معیشت کا ساٹھ فیصد حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ یہ غیر دستاویزی معیشت کا احوال ہے اور اس سے خفیہ معاشی سرگرمی سرحدی خودمختاری کو کمزور کرتی ہے۔ اس سے قانون نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے‘ حکومتی اختیار ختم ہوتا ہے اور ملک کے خود کفالت کے سفر میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ٹیکس چوری نہ صرف ملک کی مجموعی ترقی کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ افراط زر کو بھی جنم دیتی ہے کیونکہ خسارے کو کم کرنے کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی سال دوہزاربائیس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گیارہ سمگل شدہ اشیا سے مجموعی طور پر ’9 ارب ڈالر‘ کا نقصان ہوتا ہے جو ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے تین فیصد کے مساوی ہے۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کا حجم ’جی ڈی پی‘ کے پچاس فیصد سے زیادہ ہے جس کے نتیجے میں سالانہ ڈیرھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے نتیجہ کے طور پر پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف دس فیصد ہے‘ جو عالمی سطح پر سب سے کم ہے۔ اس طرح سمگلنگ نہ صرف مقامی صنعت کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اس کی وجہ سے مارکیٹ میں قیمتیں بھی متاثر ہوتی ہیں بلکہ یہ ایک متوازی معیشت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے باعث قانونی درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور یہ ملک کو اہم آمدنی سے محروم کرتی ہے۔ یہ عمل مقامی طور پر تیار کردہ اشیا کی قیمتوں کو کم کرتا ہے‘ جس کے نتیجے میں مقامی صنعتیں تباہ ہوجاتی ہیں اور قوم کا اپنی پیداواری شناخت پر اعتماد اور وقار کم ہوجاتا ہے۔ سمگلنگ کے مسئلے کا حل ضروری ہے کیونکہ سمگلنگ جعلی اور فرضی انوائسز کے استعمال کو قانونی حیثیت دیتی ہے‘ جس سے قومی خزانے کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے۔ ماہر معاشیات ہا جون چانگ ترقی کی انسانی جہت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”مادی ترقی
ایک ذریعہ ہے‘ ترقی کا اختتام نہیں۔“ قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے معیشت کی دستاویز کاری پر توجہ دینی چاہئے جو اہم ترین ہدف ہے اور اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) عوام میں یہ شعور اجاگر کرے کہ وہ ہر قسم کی خریداری کرتے وقت رسید ضرور طلب کریں۔ اگر صارفین کو شعور دیا جائے تو غیر دستاویزی معاشی شعبے کو دستاویزی بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے معیشت کو فروغ بھی ملے گا۔ عالمی ترقیاتی حکمت عملی کے تحت جو پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان میں یہ ہدف بھی شامل ہے کہ سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ اس کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ اسی مقصد کے لئے حالیہ چند ماہ کے دوران سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن شروع کیا گیا لیکن یکساں اہم ہے کہ سرحد پار سے ہونے والی غیر قانونی تجارت کو بھی روکا جائے۔ جب تک سمگلنگ میں ملوث افراد کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں سزا نہیں دی جاتی۔ اس وقت تک معاشی بہتری کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔ وقت ہے کہ ملک کی بھلائی کے لئے سمگل شدہ اشیا کی بجائے اندرون ملک بنی ہوئی مصنوعات کو خریدا جائے اور ایک اجتماعی حکمت عملی کے ذریعے سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خواجہ عامر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)