غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت میں کمی نہیں آ رہی۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے اب تک کئی ہزار خواتین اور بچوں سمیت اٹھارہ ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ قتل و غارت گری صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ اسرائیلی افواج نے یہودی آباد کاروں کے ساتھ مل کر مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی سیکڑوں نہتے فلسطینی مسلمانوںکو شہید کیا ہے۔ یہودی ریاست نے گنجان آباد غزہ کے رہائشی علاقوں‘ مساجد اور ہسپتالوں پر فضائی اور زمینی حملے کئے ہیں جو انسانی حقوق کے کسی بھی عالمی معاہدے اور کسی بھی ملک کے قانون میں جائز نہیں اور یہ جنگی جرائم انسانی تاریخ کا سیاہ باب بھی قرار دیئے جا رہے ہیں! عالمی دباﺅ کے بعد آٹھ روز کی جنگ بندی ہوئی لیکن غزہ کے تیئس لاکھ رہائشیوں کو مسلسل اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘جس کا مستقل حل ہونا چاہئے۔ غزہ کے قتل عام اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے بلا روک ٹوک حملوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے گا؟ سعودی عرب کی میزبانی میں مسلمان اور عرب ممالک کے حالیہ اجلاس اور دوحا میں ہوئے گلف ممالک کی تعاون تنظیم (جی سی سی) کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جائے لیکن یہ مطالبات
اسرائیل اور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک بالخصوص امریکہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال‘ سرمایہ دار اور خود کو بااثر سمجھنے والے مسلمان ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو قائل نہیں کر پا رہے؟ فلسطین کی معاصر تاریخ میں اس سے پہلے کبھی بھی غزہ میں اس طرح کی ظالمانہ اور منظم نسل کشی نہیں ہوئی اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ غزہ ایک بڑی ’قتل گاہ‘ میں تبدیل ہو چکا ہے‘ جہاں ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی تعداد معلوم ہلاکتوں کی تعداد سے زیادہ بتائی جا رہی ہے! امریکہ اور اسرائیل پر دباﺅ ڈالنے کا ایک طریقہ احتجاجی مظاہرے بھی ہیں جو عالمی سطح پر کئے گئے لیکن غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی عملاً ممکن نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی طرف سے غزہ کے مسئلے کے متنازعہ حل یعنی دو ریاستی حل پر بھی اسرائیل عمل درآمد کرنے کو آمادہ نہیں۔ مذکورہ دو ریاستی حل میں فلسطینیوں کا اپنا وطن ہوگا اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہوگا جبکہ اسرائیل کے ناپاک و ناجائز وجود کو الگ وطن کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ بدقسمتی سے 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے اور 2006ءسے جاری غزہ کے محاصرے کے باوجود ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے اور فلسطینی عوام کو انصاف کی فراہمی کی کوئی امید بھی نہیں۔ 1948ءسے پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہنے والے فلسطینی بنیادی ضروریات جیسا کہ پینے کا پانی‘ بجلی‘ پٹرول اور خوراک و ادویات کے لئے اسرائیل کے محتاج ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانوی حکام کی سرپرستی میں یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی تقسیم کے 1947ءمیں ایک منصوبہ بصورت حل تشکیل دیا گیا جس کے بعد 1948ءمیں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد سے فلسطینیوں کے مصائب میں ہر دن اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہودی ریاست زیادہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر رہی ہے اور اس مقصد کے لئے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے جبراً بیدخل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو پہلے غزہ نامی پٹی میں آباد ہونے کی
اجازت دی گئی اور اب اس پٹی کا بھی نصف سے زیادہ حصہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کا مسلسل زوال عرب حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے اسرائیل کے ہر ظلم کی زبانی کلامی مذمت کرتے ہیں۔ جون 1967ءمیں مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے فلسطینیوں کو پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت غزہ میں جاری قتل عام بین الاقوامی برادری کی بھی ناکامی ہے کہ وہ اسرائیل کو وحشیانہ عزائم سے روکنے اور امریکہ کو یہودی ریاست کی لامحدود حمایت بند کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمیں تین زاویوں سے اس صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دنیا فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے میں اب تک کیوں ناکام رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بین الاقوامی مذمت کے باوجود اسرائیل غزہ کے اندر اپنی فوجی کاروائیاں اس وقت تک بند کرنے کے لئے تیار نہیں جب تک کہ اس کا دو رخی مقصد پورا نہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی ملے اور حماس کا خاتمہ ہو جائے جو کہ ناممکن ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مونس احمر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)