اگلے سال کے اوائل میں ممکنہ عام انتخابات کی تیاریاں اور اِن سے متعلق بیانات کا سلسلہ جاری ہے اِس دوران سیاسی بحث مباحثہ بدعنوانی کے دیرینہ قومی مسئلے کے گرد گھوم رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ زیادہ بدعنوان کون ہے؟ پاکستان کے معاشی مسائل کو دیکھا جائے تو اِس بحث مباحثے کی کئی ایک جائز وجوہات بھی ہیں لیکن ملک کے حقیقی مسائل اِس قسم کی بحث مباحثوں سے حل نہیں ہو سکتے۔پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے قریب پچاس فیصد بچے جسمانی نشوونما سے محروم ہیں اُنہیں بہتر غذا نہیں مل رہی جس کی وجہ سے بچے اپنی تعلیمی یا سماجی زندگی میں کسی بھی طرح کی شناخت بنانے کے لئے خاطرخواہ ذہانت (آئی کیو) نہیں رکھتے۔ صحت کے شعبے کے علاو¿ہ دیگر شعبوں سے متعلق بھی پریشان کن اعداد و شمار دیکھنے اور سننے میں اکثر آتے رہتے ہیں جیسا کہ ملک میں پیدا ہونے والے ہر بیس میں سے ایک بچہ اور ہر 63 میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں زچگی کی شرح اموات بھی اتنی ہی حیران کن حد تک زیادہ ہیں اور یہ اعداد و شمار عوام کی حالت زار کی نشاندہی کر رہے ہیں اگر ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں کے حوالے سے سوچیں تو یہ مسائل سیاست دانوں کے غیر آئینی اقدامات سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں‘ جی ہاں‘ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بدعنوان عناصر کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے لیکن صرف یہی واحد سیاسی اِیجنڈا نہیں ہونا چاہئے جس پر قومی سیاست اور سیاسی خیالات کی بنیاد رکھی جائے۔پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو ”بدعنوان“ قرار دینے میں اہم کردار اَدا کیا ہے اور اپنے دور ِاقتدار میں اُس نے ان کے خلاف مقدمات بنانے پر بھی زیادہ توجہ دی اور اگرچہ بدعنوانی کے تمام مقدمات غلط نہیں ہو سکتے اِن میں چند حقیقی ہوسکتے ہیں لیکن ناکافی شواہد یا کاروباری امور و انتظام میں غلطیوں کی بنا پر شک کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بہت سے لوگوں پر جرم ثابت نہیں ہوسکا یا جزوی طور پر ثابت ہوا۔ اِسی طرح اب تحریک انصاف کے خلاف مقدمات قائم ہیں جن میں چند سچ بھی ہو سکتے ہیں اور بہت سے الزامات کو ناکافی ثبوتوں اور شواہد کی وجہ سے ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔پاکستان میں وسیع سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر اِس بارے سوچنا چاہئے کہ ملک
کو لاحق دائمی امراض اور مصائب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت کیسے درست کی جا سکتی ہیں یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ پاکستان کے نوجوانوںکی اکثریت مایوسی کا شکار ہے۔ ہر سال نوجوانوں کی ایسی آبادی کا اضافہ ہو رہا ہے جنہیں روزگار چاہئے لیکن روزگار کے مواقع تلاش کرنےوالوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ فی الوقت حکومت کے پاس ایسا کوئی بھی قومی پروگرام نہیں ہے جو نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی کا حل پیش کر سکے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان سے ہر سال ذہین نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے اور یہ افسوسناک صورتحال ہے کیونکہ پاکستان کے پاس وسائل اور اہلیت کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر ایک دوسرے کی مخالفت پر مبنی سیاست کے علاو¿ہ دیگر قومی ترجیحات کا تعین کیا جائے تو یہ قوم کے وسیع تر مفاد میں زیادہ بہتر ہوگا‘ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ کس طرح سرکاری اور نجی شعبے کی جامعات میں داخلے کےلئے درخواست گزار زیادہ ہوتے لیکن اُنہیں حسب خواہش داخلہ نہیں ملتا۔ اِسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسروں کو کبھی کبھار انکے سیاسی خیالات یا وابستگیوں کی بنیاد پر برطرف کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف نجی شعبے کی سرمایہ کاری نے شعبہ تعلیم کو سہارا دے رکھا ہے ۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر کاملہ حیات۔ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)