مسئلہ فلسطین : ماضی حال مستقبل

غزہ کی صورتحال کو سمجھنے کےلئے عمومی غلطی یہی کی جاتی ہے کہ موجودہ صورتحال کا آغاز ”سات اکتوبر دوہزار تیئس“ کے روز حماس کی جانب سے اسرائیل پر دلیرانہ حملوں کو سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم و تشدد اور فلسطینیوں کی تذلیل کی تاریخ کئی سو سال پرانی ہے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کیا ہے؟اسرائیلی ریاست کے قیام کا نظریہ یہ ہے کہ یہودیوں سے ایک خطے (زمین) کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے قیام کا اعلان انہوں نے دو ہزار سال بعد یعنی 1948ءمیں اُس وقت کیا جب فلسطینیوں کو اُن کی آبائی زمینوں سے زبردستی بیدخل کیا گیا جو استعماری سازشوں اور صیہونی درندگی کی وجہ سے ممکن ہوئی اور یورپ و امریکہ کے سرمایہ دار یہودیوں نے عیسائیت کی پرچار کرنےوالی حکومتوں کی مدد سے فلسطین کی صورت ایک ایسی سرزمین پر اپنی ریاست قائم کی جو درحقیقت کبھی بھی اُن کی نہیں رہی۔ اِس بات کو سمجھنے کےلئے ایک صدی قبل برطانوی راج اور صہیونیوں کے درمیان موجود تعلق کو سمجھنا ہوگا۔ یہ وہی تعلق تھا جو آج بھی قائم ہے اور جس نے صرف چھ ہفتوں کے دوران ساڑھے پانچ ہزار فلسطینی بچوں کو بے رحمی سے قتل کیا ہے‘ اِن بچوں میں شیرخوار بچے بھی شامل ہیں۔پہلی جنگ ِعظیم اور سلطنت ِعثمانیہ کا خاتمہ مسئلہ فلسطین کا نقطہ آغاز تھا۔ عثمانی سلطنت جس نے ایشیا‘ افریقہ اور یورپ میں قدم جمائے (اپنے وقت کی مضبوط قوت اور ایک عالمی طاقت) تھی‘ پہلی جنگ ِعظیم کے بعد کمزور ہوچکی تھی اور اُسے ’یورپ کا مرد ِبیمار‘ کہا جاتا تھا۔ پہلی جنگ ِعظیم کے بعد یورپ کی نوآبادیاتی قوتوں نے سلطنت ِعثمانیہ کی باقیات کو آپس میں مل بانٹ کر تقسیم کر دیا۔ نظریہ یہ تھا کہ ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو (ڈیوائیڈ اینڈ رول) جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے برطانیہ نے مکہ مکرمہ اور حجاز مقدس کے حکمران حسین بن علی (جن کی اولاد آج اردن پر حکمرانی کررہی ہے) پر زور دیا کہ وہ سلطنت ِعثمانیہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور بغاوت کا اعلان کر دیں۔ اس طرح شروع ہونےوالی ”عرب بغاوت“ عرب سرزمین پر سلطنت ِعثمانیہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی یہی فلسطین پر برطانوی قبضے اور تین دہائیوں بعد اسرائیل کے قیام کا باعث بنا۔ برطانیہ نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے عربوں سے وعدہ کیا کہ اُنہیں حکمرانی کےلئے زمین دی جائےگی وہیں برطانیہ نے دوسری جانب یورپی یہودیوں کو بھی یقین دلایا کہ فلسطین اُن کا وطن ہوگا۔ اس حقیقت کے برعکس کہ فلسطینی زمین کی یوں تقسیم (بندربانٹ) کرنے کا برطانیہ کو کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا 2 نومبر 1917ءکے روز ”اعلانِ بالفور“ کیا گیا۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ اور سابق وزیراعظم آرتھر جیمز بالفور نے اُس وقت کے ممتاز برطانوی صہیہونی لارڈ والٹر روتھسچلڈ کو بتایا کہ ’برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کےلئے ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کےلئے اُنہیں سہولتیں بھی فراہم کرےگی‘ انہوں نے اپنے غیرمشروط تعاون کےساتھ کی یہ نقطہ بھی پیش کیا کہ اِس عمل سے فلسطین میں مقیم غیریہودی آبادیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے اور پھر ”اعلانِ بالفور“ کی چند سطروں نے تاریخ بدل دی جو فلسطینیوں کے لئے ایک ایسا بھیانک خواب ثابت ہوئی جو آج تک جاری و طاری ہے۔”اعلانِ بالفور“ کے ایک ماہ بعد یروشلم بھی سلطنت ِعثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا اور برطانوی قبضے میں آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ یروشلم میں داخل ہوتے ہوئے برطانوی جنرل ایڈمنڈ ایلنبے نے فاتحانہ انداز میں کہا تھا کہ ”صلیبی جنگیں اب پوری ہوئی ہیں“ اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ 1920ءمیں بھی پیش آیا جب دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد فرانسیسی جنرل ہینری گورانڈ صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گیا اور کہا کہ ”صلاح الدین ہم واپس آچکے ہیں“عثمانی سلطنت کے ماتحت فلسطین کے زوال کے بعد ’مینڈیٹری فلسطین‘ بنا جوکہ لیگ آف نیشنز کے تحت برطانیہ کے قبضے میں تھا اور اسی دوران یورپ میں فاشزم میں اضافے کے ساتھ یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی میں تیزی دیکھی گئی۔ دوسری جنگ ِعظیم کے اختتام پر فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت میں واضح اضافہ ہونے کےساتھ عربوں اور یہودیوں کے درمیان تناو¿ بھی بڑھاجسکے بعد ’اقوامِ متحدہ‘ کا کردار شروع ہوا اور اقوام متحدہ نے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنےکا فیصلہ کیا جسے فلسطین کا دو ریاستی حل کہا جاتا ہے عربوں نے تقسیم کے اِس منصوبے کو شروع دن ہی سے مسترد کردیا تھا خاص کر 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز بھی اِس حل کو نہ ماننے کی وجہ سے تھا‘اسرائیل کو فلسطینیوں اور دیگر عرب ممالک کی زمینیں ہتھیانے کی بھوک ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر قاسم اے معینی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)