معدنیات : پوشیدہ خزانہ

ناقابل تصور ہے اور اِس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملے گی کہ کسی حکومت نے سو ارب ڈالر کے قومی اثاثوں کو گیارہ ارب ڈالر جیسی مالیاتی ذمہ داری کے عوض فروخت کر دیا ہو؟ 1993ءمیں آسٹریلیا کی کان کنی کی کمپنی ’بی ایچ پی بلیٹن‘ نے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک نامی کان سے تانبے اور سونے کی تلاش اور اِن قیمتی معدنیات کو نکالنے کےلئے ’چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (سی ای جے وی اے)‘ میں حصہ لیا اُس وقت کے وزیر اعظم معین قریشی تھے جنہوں نے اِس قسم کے کاروبار کےلئے ’بین الاقوامی بہترین طریقوں‘ کو اپناتے ہوئے پاکستان کےلئے معاہدہ کیا اور اِس معاہدے کی تعریف کی‘ 1997ءتک کافی ذخائر کی نشاندہی کا عمل مکمل ہو چکا تھا‘ جس میں مجموعی طور پر 5.9 ارب ٹن خام لوہے‘ گیارہ ملین ٹن تانبا‘ چھ سو ساٹھ ٹن سونا اور یورینیم شامل تھے‘سال دوہزار کے دوران آسٹریلیا کی ایک کمپنی ’منکور ریسورسز‘ نے ’بی ایچ پی‘ کے حصص خرید لئے‘ سال دوہزارچھ میں ریکو ڈک 37.5فیصد‘ کینیڈا کے بیرک گولڈ 37.5فیصد اور بلوچستان حکومت کے پچیس فیصد کے ساتھ ریکوڈک کے مشترکہ مالک بن گئے‘ ٹیتھیان کاپر کمپنی پی ٹی لمیٹڈ (ٹی سی سی)‘ جو منکور ریسورسز کا ماتحت ادارہ ہے‘ نے ’سی ای جے وی اے‘ کے تحت بی ایچ پی کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں سنبھالیں‘ سال دوہزارگیارہ میں‘ ٹی سی سی نے‘ دوسوبیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد‘ کان کنی کی لیز کے لئے درخواست دی لیکن ٹی سی سی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار کر دیا گیا (ٹی سی سی کے بقول کہ وہ ایک ہی فائدے کےلئے دو بار ’ادائیگی‘ نہیں کر سکتے) سال دوہزارتیرہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ٹی سی سی کی درخواست مسترد کر دی‘ بارہ جولائی دوہزاراُنیس‘ عالمی بینک کی شاخ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) نے ’ٹی سی سی‘ کو مجموعی طور پر 5.84 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کیا‘ آئی سی ایس آئی ڈی نے ٹی سی سی کےخلاف پاکستان کے کرپشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے 1993ءکے معاہدوں کو پاکستان اور ٹی سی سی کے درمیان طے شدہ امور کے طور پر تسلیم کیا۔ ٹریبونل نے ٹی سی سی کو لائسنس دینے سے انکار کے پاکستان کے جواز کو ناقابل یقین پایا۔ ایک خاص موڑ پر‘ اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کی‘ منصوبے کا کنٹرول سنبھال لیا اور وہ بات جو بگڑ گئی تھی اُسے حل کرنے کےلئے جامع اقدامات کا آغاز کیا گیا‘ راقم الحروف اِس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ ایک خاص وقت میں میجر جنرل اظہر وقاص رات گئے تک انتھک محنت کرتے رہے اُور امن و امان کی بحالی سمیت حالات کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کےلئے انتھک محنت کی‘مارچ دوہزاربائیس میں بیرک گولڈ کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ طے پایا جس کے تحت آئی سی ایس آئی ڈی کی جانب سے عائد کیا گیا جرمانہ غیر مو¿ثر ہو گیا۔ دسمبر دوہزاربائیس میں‘ بیرک گولڈ نے 2028ءمیں پیداوار شروع ہونے کے ساتھ ریکوڈک منصوبے کی بحالی اور ترقی کےلئے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کا اعلان کیا۔ یہ کیس اس بات کی واضح مثال کے طور پر کام کرتا ہے کہ کس طرح ذاتی مفادات ایک سو ارب ڈالر کے قومی اثاثے کو گیارہ ارب ڈالر کی ذمہ داری میں تبدیل کرسکتے ہیں‘ اہم فیصلے انفرادی لالچ کی وجہ سے کئے گئے جس کی وجہ سے ریکوڈک کیس نے حکومتی فیصلہ سازی کے عمل پر عوام کے اعتماد کو ختم کر دیا‘جامعات میں اِس کیس کو پڑھانے سے شفاف حکمرانی اور اخلاقی طرز عمل کے ذریعے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکتا ہے‘ جب اِن اصولوں پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے تو اِس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ریکوڈک کیس کاروباری اخلاقیات کا عمدہ نمونہ ہے جس سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح عالمی اداروں سے بات چیت اُور لین دین کی جاتی ہے اور اِس مثال کو دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا جائے تو مستقبل کے رہنماو¿ں کو غیر اخلاقی طریقوں کے وسیع تر مضمرات سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ قومی فلاح و بہبود پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے نتائج کی جانچ پڑتال کرکے طلبہ کاروبار اور حکمرانی میں اخلاقی فیصلہ سازی کی اہمیت جیسی بصیرت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)