اُنیس سو ستر کی دہائی سے پاکستان وقتاً فوقتاً علاقائی اسلحے کے کنٹرول اور اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایم) تجویز کرتا رہا ہے جبکہ بھارت عام طور پر ایسی تجاویز کو مسترد کرنے کی روش رکھتا ہے کیونکہ بھارت چین کو اپنی سلامتی کےلئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کئی ’سی بی ایمز‘ کی پاسداری کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ‘ ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی تازہ ترین فہرست کا تبادلہ اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار جنگ بندی‘ ہتھیاروں پر کنٹرول اور سی بی ایم وغیرہ لیکن یہ سبھی کوششیں رائیگاں گئی ہیں ‘لہٰذا اب وقت ہے کہ پاکستان مستقبل کی حکمت عملی کو بہتر بنانے کے لئے علاقائی سلامتی کے معاملات پر گہری نظر رکھے اور اپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لائے۔جنوبی ایشیا میں علاقائی خطرے کا تصور تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت اور مشرقی ایشیا سے چین شامل ہیں‘ جنوبی ایشیا تین متحارب جوہری طاقتوں کا سنگم ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ جوہری ہتھیاروں کے حقیقی استعمال کے خطرات کے ساتھ انتہائی غیر مستحکم جوہری فلیش پوائنٹ کہلاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی اِس ساخت میں بھارت پاکستان اور چین کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بھارت اسٹریٹجک اور معاشی طور پر مختلف حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت کے کئی متنازعہ علاقے ہیں۔ اِس کی شمالی اور مغربی سرحد پر بالترتیب چین اور پاکستان کے ساتھ متنازع سرحدیں ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں اکثر ہوتی رہتی ہیں جیسا کہ سال دوہزاربیس میں دیکھی گئیں جبکہ سال دوہزاراُنیس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی تصادم قریب پہنچ چکا تھا۔ ان بھارتی اقدامات نے خود بھارت کے لئے خطرات کی حد بڑھا دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کو دشمنی کے زاوئیے سے دیکھتا ہے۔ پہلے سے ہی کمزور اعتماد اور باضابطہ رکاوٹوں کے فقدان کی وجہ سے نئی دہلی کو دوہزاراُنیس اور دوہزاربیس کے واقعات سے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں اضافے کے خطرات کا احساس ہوا ہے۔ یہ فرض کرنا درست ہے کہ اسلام آباد میں بھی اسی طرح کے احساسات پائے جاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی فریق کشیدگی میں اضافے کا خواہاں نہیں ہے اور اِس کا ثبوت سال دوہزاربائیس میں برہموس میزائل کی ’غلط فائرنگ‘ پر اسلام آباد کے ردعمل کی پختگی کی صورت دکھائی دیا۔ سال دوہزاراُنیس میں پاکستان کی جانب سے بھارت کے ہلاک ہونے والے پائلٹ کو واپس کرنے کو امن کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے باوجود بھارت کا جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا جارحانہ منصوبہ پرامن جنوبی ایشیا کی تعمیر میں عدم استحکام کی صورت رکاوٹ بنا ہوا ہے۔بھارت میں سال دوہزارچوبیس کے عام انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں‘ پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے مہم جوئی کا اندیشہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے خاص طور پر سرحدی علاقوں اور متنازعہ علاقوں میں اپنی فوجی تیاریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ سری نگر ائر بیس پر بھارت نے نگرانی کے لئے اسرائیلی ہیرون مارک ٹو ڈرونز کے ساتھ مگ اُنتیس بھی تعینات کر رکھے ہیں جو لیزر گائیڈڈ بم لے جا سکتے ہیں‘ اگرچہ بھارت اور چین نے سرحدی تنازعات کم کرنے کے لئے اعلی سطحی فوجی بات چیت کے کئی ادوار مکمل ہوئے ہیں لیکن تناو¿ اب بھی موجود اور پہلے سے زیادہ ہے۔ بھارت اپنی غیر ترقی یافتہ شمالی سرحد پر کشیدگی بڑھنے کی صورت میں نقل و حرکت کو بڑھانے کے لئے شاہراہوں‘ سرنگوں اور ریلوے کی تعمیر کر رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نیوکلیئر اوور ہینگ کے تحت اپنی سرحدی افواج کو فعال طور پر مضبوط بنا رہا ہے‘ جس سے جنوبی ایشیا مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ اپنی سرحد پر بھارت کے فوجی رویئے اور مہم جوئی کی تاریخ کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے دو طرفہ جوابی کاروائی کا خطرہ برقرار ہے۔ پاکستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں پر بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کی کشیدگی میں اضافے کی صورت میں‘ یہ امکان موجود ہے کہ چین بھی اس کی پیروی کرے گا۔ ایسی صورت میں بھارت خود کو دو محاذوں پر جنگ کی صورتحال میں ڈال دے گا اگرچہ بھارت سرحدوں پر ایس چار سو میزائلوں کی تعیناتی کے دوران اپنی دفاعی افواج کو فعال طور پر جدید بنا رہا ہے لیکن وہ بحران کو طول نہیں دے سکتا کیونکہ کشیدگی کم کرنا مشکل ہوگا۔ چین کے بڑے فوجی حجم نے بھارت کو نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کی زیادہ متحرک افواج اِس کے لئے چیلنج ہیں۔ یہ بھارت کو ایک ایسی پریشانی میں ڈالے ہوئے ہے جس سے وہ ممکنہ طور پر بچ جائے گا۔ پرامن جنوبی ایشیا کا قیام بھارت کے بھی مفاد میں ہے تاہم بھارت کی طرف سے کوئی بھی اشتعال انگیز اقدام یا نادانستہ طور پر کشیدگی میں اضافہ اس انتہائی غیر مستحکم خطے میں پہلے ہی سے نازک امن و امان کی صورتحال کو ہلا کر رکھ دے گا اِس لئے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بھارت سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے کے لئے چین کے ساتھ اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کر رہا ہے تو دوسری طرف اسلام آباد اور نئی دہلی میں نئی حکومتوں کے درمیان تعلقات بھی نئی سمت میں آگے بڑھنا ابھی باقی ہے۔ بی جے پی کی الٹرا نیشنلسٹ پالیسیاں ترقی پسند جنوبی ایشیا میں قیام امن کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں لیکن اس سے بی جے پی اُور اسلام آباد کے درمیان مثبت روابط پیدا ہونے کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام