تعلیم ریاست کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نوجوانوں کو قوم کا مستقبل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ مستقبل خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ ناقص تعلیمی سہولیات‘ غربت‘ آگاہی کی کمی اور تعلیمی نظام میں ہم آہنگی ہے۔ تعلیم کو سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے اور وقت کے آغاز سے ہی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ افلاطون نے اپنی تحریروں میں استدلال کیا ہے کہ ”اگر کوئی شخص تعلیم کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے آخر تک مفلوج رہتا ہے“ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جو بچوں کی کل آبادی کا چوالیس فیصد ہیں اگرچہ ان بچوں کے پاس بہت سے انقلابی خیالات ہوں گے اور بھی زندگی میں کچھ کرنے کا خواب رکھتے ہوں گے لیکن ان کے لئے تعلیم کے خاطرخواہ وسائل موجود نہیں ہیں۔تعلیم اور معاشی ترقی کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اگر پاکستان کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) کو دیکھا جائے تو تعلیم کی کمی کے ترقی پر نمایاں اثرات نظر آتے ہیں۔ تعلیم لوگوں کو ترقی دینے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے اور جیسے جیسے تعلیم کیریئر کے مواقع کے دروازے کھولتی ہے‘ لوگ بہت ضروری سماجی مہارتوں اور اعتماد کو فروغ دیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں انہیں ملک کی معاشی ترقی میں حصہ ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی رپورٹ کے مطابق تعلیم کی غیر منصفانہ اور ناکافی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان میں فی کس آمدنی پر منفی اثر پڑا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کے درمیان عدم مساوات اور امتیازی سلوک پیدا ہوا ہے اگرچہ خواتین اور دیہی علاقوں میں رہنے والے اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن مردوں اور شہری علاقوں میں رہنے والوں کو بہتر معیار کی تعلیم تک رسائی کی نسبتاً زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ ایس ایس سی (میٹرک) اور ایف ایس سی (بارہویں جماعت) مکمل کرنے والے طلبہ اور ’او لیول‘ یا ’اے لیول‘ مکمل کرنے والے طلبہ کے درمیان خواندگی کا فرق انتہائی زیادہ ہوتا ہے۔ ایس ایس سی اور ایف ایس سی سسٹم بین الاقوامی معیاروں کے مقابلے میں
بہت کم مضامین پر مبنی ہے۔ سرکاری سکولوں کے نصاب تعلیم میں اسباق کی مقدار جدید علوم کے مطابق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پرانے نصابی مواد طلبہ کو پڑھائے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے میٹرک یا انٹر کے نصاب سے طلبہ کے لئے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا امکان بہت ہی کم ہوجاتا ہے اور انہیں وہی مواقع حاصل ہوتے ہیں جو او یا اے لیول کے طلبہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس عدم توازن کے خلاف لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ متحدہ قومی نصاب متعارف کرایا جائے جس کے لئے ہر سطح پر سرکاری اور نجی دونوں سکول عمل کریں۔ اس طرح کے اقدامات سے اپر‘ لوئر اور مڈل کلاس کے درمیان فرق کم ہوجائے گا کیونکہ وہ یکساں معیار کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں مساوی مواقع بھی پیدا ہوں گے جن سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ ہر ایک کے پاس موجود مہارتیں یکساں معیار کی ہونے کا امکان ہے۔نصاب تعلیم کے درمیان فرق کم کرنے اور تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنے سے ”ایلیٹ ازم“ کا خاتمہ ممکن ہے۔ جو لوگ کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں انہیں بھی مراعات یافتہ طبقات کے لئے میسر امکانات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم مصطفی عارف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)