پاکستان : سال 2024ئ

پاکستان ایک اور سال میں داخل ہونے والا ہے جو اپنے درمیانی اور طویل مدتی مستقبل کے حوالے سے گہرے چیلنجوں سے گھرا ہوا ہے۔ فروری میں انتخابات کی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک اور سیاسی تبدیلی کا امکان ہنگامہ خیز ہے جس کا شاید حقیقت سے تعلق نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ملکی صورتحال سے زیادہ اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو کس طرح نیچا دکھائیں اور ان کی توجہ اقتدار پر ہے جبکہ تعجب خیز یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ انہیں ملک کے حالات سے بخوبی آگاہی ہے لیکن ان کے پاس اصلاحات کا جامع اور واضح مجموعہ نہیں ہے۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں شامل تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی مختلف نظر آتی ہے جو ایک سے زیادہ جماعتوں سے اتحاد کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وہ پارلیمان میں وہ جادوئی تعداد تک پہنچ جائے جس کے بعد مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے علاوہ اپنی جماعت کے خلاف مقدمات کا بھی بالکل اسی طرح خاتمہ ممکن بنایا جا سکے جس طرح مسلم لیگ نواز نے کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کرنے پر دیگر جماعتوں کو حیرت یا اعتراض بھی نہیں ہوگا۔آج تک اہم سیاسی حریفوں نے بار بار زیادہ خوشحال مستقبل کا وعدہ کیا ہے حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہدف آخر حاصل کس طرح کیا جائے گا۔ پاکستان کو درپیش بڑے مسائل میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس ایک مسئلے کی وجہ سے پاکستان کی داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی دونوں ہی متاثر نظر آتے ہیں جبکہ عام آدمی کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی کے اثرات زیادہ شدت سے محسوس ہو رہے ہیں۔ قومی ترقی کا پہیہ انتہائی سست روی سے گھوم رہا ہے۔ نئی ملازمتیں پیدا نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے تو جب تک پاکستان غیرملکی قرضوں کے گرداب سے نہیں نکلتا اس وقت تک کوئی بھی حکمت عملی چاہے کتنی ہی سوچی سمجھی کیوں نہ ہو اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے معاشی مستقبل کیلئے حسب اعلان (8 فروری) کو عام انتخابات انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکے ہیں اور چونکہ سبھی سیاسی جماعتیں اس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں کو ”بے مثل و بے مثال اصلاحات“ اپنانے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ایسی اصلاحات جو بالآخر پاکستان کے اندرونی مالیاتی خسارے اور ملک کے بین الاقوامی کرنٹ اکاو¿نٹ و تجارتی خسارے سے نمٹ سکے تاہم اس مشق کو امیر اور غریب کے درمیان خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی تقسیم سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا جس نے داخلی استحکام کیلئے سنگین حالات کو جنم دیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران بگڑتے ہوئے غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے میں پاکستان کی بار بار ناکامی نے غیر متوقع نتائج کے ساتھ بدامنی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ صنعتی‘ زرعی اور مجموعی طور پر معاشی تنزلی کی وجہ سے تباہ حال معیشت نے صورتحال کو بگاڑ دیا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں حالیہ تیزی چند لوگوں کیلئے خوش آئند خبر ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں‘ جس بات کو ترقی اور کامیابی قرار دیا جاتا ہے وہ وسیع تر معیشت اور پاکستان کی وسیع تر آبادی کیلئے بے معنی چیزیں ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو برسراقتدار آنے (نئی حکومت بنانے) کے بعد دو بڑی خرابیوں سے نمٹنا ہوگا۔ ایک مالی خسارہ کیسے کم کیا جائے یعنی حکومت کے اخراجات حکومت کی آمدنی سے کم ہوں اور دوسرا جاری اخراجات کا خسارہ کم ہو یعنی ملک کو درآمدات کیلئے مطلوب رقم جسے جاری اخراجات (کرنٹ اکاو¿نٹ) کہا جاتا وہ موجودہ زرمبادلہ ذخائر سے تجاوز نہ کریں اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے یعنی تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے برآمدات کو فروغ دیا جائے جیسا کہ دیگر ممالک کرتے ہیں۔ سرکاری اخراجات کم کرنے کیلئے علامتی اور ٹھوس اقدامات کا امتزاج کرنا ہوگا۔ اگلے وزیر اعظم کی جانب سے مہنگی لگژری گاڑیوں کے استعمال کی بجائے چھوٹی گاڑی کا انتخاب کرنے سے بجٹ پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن اس اقدام سے عوام کو ایک طاقتور اشارہ جائے گا کہ ان کے حکمران قومی خزانے کی پائی پائی ’عوام کو درپیش مشکلات کا احساس‘ کرتے ہوئے کر رہے ہیں اور اگر ایسا کر لیا گیا تو عوام اور حکمرانوں (جملہ سیاسی جماعتوں) کے درمیان جو بداعتمادی پائی جاتی ہے اسے ختم یا کم کرنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر فرحان بخاری۔ ترجمہ ابوالحسن امام)